بنگلور: ریاست کرناٹک کے دارالحکومت بنگلورو میں منعقدہ اس اجلاس میں کسان سمیوکت مورچہ کے رہنما درشن پال نے کہا کہ کسانوں کی ایک طویل جدوجہد و قربانیوں کے بعد 3 کسان مخالف قوانین تو ضرور واپس لئے گئے لیکن ان کے کئی مدے ابھی بھی جیسے کے تیسے ہیں۔ درشن پال نے کہا کہ مرکزی حکومت کی جانب سے کئے گئے وعدوں کو ابھی تک پورا نہیں کیا گیا ہے۔ منمم سپورٹ پرائس (ایم. ایس. پی)، قرضہ مکتی و لکھیم پور کھیری کے مجرم و منسٹر اجے مشرا کی کیبینیٹ سے برخاستگی، الیکٹریسٹی بل 2020 کو واپس لئے جانے کا وعدہ، کسانوں پر لگائے گئے کیسز کا واپس لیا جانا، کسانوں کی فصل کا بیما کرانا اور کسانوں کو کسان پینشن دینا، یہ سارے وعدے ابھی بھی پورے ہونے باقی ہیں، لہذا کسانوں کا یہ آندولن جاری ہے، تاکہ ان تمامی مسائل کو مرکزی حکومت جلد از جلد حل کرے۔
انہوں نے بتایا کہ کسانوں کے آندولن کا دوسرا مرحلہ اب شروع ہوچکا ہے۔ بنگلور کا پرزور احتجاجی سماویش اسی کی ایک کڑی ہے.اسی آندولن کے حصے کو طور پر دارالحکومت دہلی میں بتاریخ 20 مارچ 2023 کو ایک بڑے پیمانے پر کسان پنچایت کا انعقاد کیا جائیگا۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کرناٹک کے نائب صدر مولانا محمد یوسف کنی نے کہا کہ نہ صرف کسان بلکہ مزدور، دلت، آدیواسی، خواتین و یوا سبھی نریندر مودی کی مرکزی حکومت و ریاست کرناٹک کی بسوراج بومائی کی حکومت سے شدید بیزار ہیں۔ان کی عوام مخالف پالیسیوں سے تکلیف میں مبتلا ہیں.
یہ بھی پڑھیں:Complaint Against BJP Leader کانگریس نے کرناٹک کے وزیر کے خلاف شکایت درج کرائی
مولانا یوسف کنی نے کہا کہ عوام اب مرکز و ریاست میں سیاسی اعتبار سے بڑی تبدیلی دیکھنا چاہتی ہے اور وہ تبدیلی آکر رہے گی۔ اس موقع پر ایگریکلچر ایکسپرٹ پروفیسر جی این ناگراج نے کہا کہ کسان تحریک کے دوران 700 سو سے زائد کسانوں کی موت نریندرہ مودی حکومت کے فسطائیت کا ایک نمونہ ہے۔