تاریخی شہر میسور میں ایک نجی تعلیمی ادارہ رفاح المسلمین نے سنہ 2009 میں اوقافی جائیداد جس میں ایک عیدگاہ بھی شامل ہے، اسے وقف نے لیز پر دیا تھا، ایک بینک میں اس جائیداد کو رہن رکھا گیا جس پر تقریباً 8.5 کروڑ روپیوں کا قرض لیا گیا، اب تک اس کی ایک بھی قسط بینک کو جمع نہیں کی گئی۔
حالانکہ رفاح المسلمین نے بعد میں عیدگاہ کو رہن سے نکالا لیکن ایک دوسری وقف ہی کی جائیداد کو بینک میں رہن کے طور پر رکھا۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ بینک قرض کی رقم وصولنے کے لئے ان اوقافی جائیداد کو نیلام کرنے کا قدم اٹھا رہا ہے۔
اس مسئلے کے متعلق ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے "وقف اسکیم" کی رپورٹ تیار کرنے والے بی جے پی رہنما انور مانیپاڈی کہتے ہیں کہ میسور کے ایم ایل اے تنویر سیٹھ کی یہ بات کہ وہ رفاح المسلمین کے اس کرپشن کے بارے میں علم نہیں رکھتے، ہرگز قابل قبول نہیں ہے، چونکہ وہ نہ صرف ایم ایل اے بلکہ وقف بورڈ کے وزیر بھی رہ چکے ہیں اور وقف بورڈ کے رکن بھی ہیں۔
اس پورے معاملے میں انور مانیپاڈی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ نہ صرف نجی ادارہ رفاح المسلمین بلکہ تنویر سیٹھ پر بھی قانونی کارروائی کی جائے کہ وہ بھی اس دھوکہ میں ملوث ہیں۔