متعدد سماجی کارکنان، صحافی و اہم شخصیات پر مشتمل "بہوتوا کرناٹک" نامی ایک ٹیم نے نرگند کا دورہ کیا اور متاثرین کے ارکان خاندان سے ملاقات کی۔ ٹیم نے انتظامیہ و پولیس اہلکاروں سے بھی ملاقات کی اور اس سلسلہ میں ایک تفصیلی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ تیار کی ہے۔
نرگند تشدد کے متعلق بہوتوا کرناٹک کے رکن پروفیسر آکاش بھٹا چاریہ نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ دن کے اوقات میں دھرم سنسد منعقد کرکے مسلم مخالف اور نفرت انگیز بیانات دئے گئے جس کے نتیجے میں شمشیر اور سمیر نامی نوجوانوں پر تقریباً 10-15 بجرنگ دل کے ورکرز نے چاقوؤں اور تلواروں سے حملہ کردیا جب کہ اس حملہ میں سمیر ہلاک ہوگیا۔ آکاش نے بتایا کہ یہ حملہ منصوبہ بند تھا۔
پروفیسر بھٹاچاریہ نے بتایا کہ 17 جنوری کو پیش آیا سانحہ اچانک سے نہیں ہوا بلکہ تقریباً 2-3 ماہ سے گاؤں میں فرقہ پرست طاقتوں کی جانب سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کی کوششیں کی جارہی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب پولیس اہلکاروں سے دھرم سنسد، مسلم نوجوانوں پر حملہ اور گزشتہ کچھ روز کے دوران ہونے والے فرقہ پرستی پر مبنی واقعات سے متعلق دریافت کیا گیا تو وہ ٹال مٹول کرنے لگے اور کوئی مناسب جواب نہیں دیا۔
انہوں نے بتایا کہ آر ایس ایس کی جانب سے مسلمانوں پر جو حملے کئے جارہے ہیں اس کا مقصد اقلیتوں کو ڈرانا ہے۔ آکاش نے بتایا کہ اس معاملہ میں اب تک صرف 4 ملزمین کو گرفتار کیا گیا جبکہ دیگر ملزمین کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا۔ آکاش بھٹاچاریہ نے بتایا کہ آر ایس ایس اور بجرنگ دل کی جانب سے ملک کو ہندو راشٹرہ بنانے کی سازش کی جارہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
واضح رہے کہ نرگند تشدد معاملے میں اب مقامی پولیس جانچ میں لگی ہوئی ہے اور اس دوران ایک پولیس انسپکٹر کو معطل کردیا گیا ہے۔
آکاش بھٹاچاریہ نے بتایا کہ بہت جلد فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کو تیار کرلیا جائے گا تاہم یہ رپورٹ گورنر اور وزیراعلیٰ کو پیش کرتے ہوئے معاملے کی تحقیقات کرانے اور فرقہ پرست عناصر کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا جائے گا۔