اس حادثے کو اس وقت کی برسر اقتدار جماعت کانگریس حکومت نے دہشت گردانہ حملہ قرار دیا تھا اور پولیس کی تحقیقات کے دوران کئی افراد کو اس معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا۔
2005 کے اس نام نہاد دہشت گردانہ معاملے میں بنگلور پولیس نے سنہ 2017 میں تریپورا اگرتلا کے قریب ایک گاؤں میں رہنے والے محمد حبیب میاں کو انسداد دہشت گردی قانون یو اے پی اے کے تحت حراست میں لیا اور بنگلورو جیل بھیج دیا تھا۔
حالانکہ اس پورے معاملے کی جانچ اور کیس کی سماعت کورٹ میں جاری ہے، تاہم محمد حبیب میاں کو بنگلور کی این آئی اے کی خصوصی عدالت نے اس کیس سے بری کردیا ہے۔
محمد حبیب میاں نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے جیل میں گزرے چار سال 3 مہینے کی روداد سنائی۔ انہوں نے پوری داستان میں بتایا کہ انہیں جیل میں کس طرح رکھا گیا، اس دوران ان کے والد کا حرکت قلب بند ہونے سے انتقال ہوگیا، گھر میں پریشانیوں میں اضافہ ہوتا رہا۔
وہیں کیس کی پیروی کرنے والے ایڈووکیٹ محمد طاہر نے بتایا کہ اس معاملے میں این آئی اے کی خصوصی عدالت نے محمد حبیب میاں پر عائد تمام الزامات کو خارج کردیا ہے۔
اس موقع پر ایڈووکیٹ محمد طاہر نے بتایا کہ متعدد دہشت گردانہ معاملات میں مسلمانوں کو قصداً پھنسایا جاتا ہے اور ان میں بیشتر معصوم ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ بنگلور پولس نے ملزم کو تعزیرات ہند کی دفعات 120-B, 121,121-A,122,123,307,302، آرمس ایکٹ کی دفعات 25,27، دھماکہ خیز مادہ قانون کی دفعہ 6 اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام والے قانون کی دفعات 10,13,16,17,18,20 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا اور اس پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔