ETV Bharat / state

Hijab Row Reached Supreme Court: حجاب پر ہائی کورٹ کے فیصلے کو سُپریم کورٹ میں چیلینج

author img

By

Published : Mar 15, 2022, 7:49 PM IST

کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی Hijab Ban in Karnataka Educational Institute پر ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ معاملہ اب سُپریم کورٹ پہنچ گیا ہے اور حجاب پر پابندی کے خلاف عرضی گزاروں نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو سُپریم کورٹ میں چیلینج کیا ہے۔

کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی
کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی

کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب معاملے پر اپنا فیصلہ سنایا۔ Karnataka High Court Verdict Over Hijab عدالت نے فیصلے میں کہا کہ اسلام میں حجاب پہننا ضروری نہیں ہے، اس لیے اسکول اور کالجز میں حجاب پر عائد پابندی جائز ہے۔

اس کے بعد کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی ایک عرضی سُپریم کورٹ میں داخل کی گئی ہے۔ کالجز کی 6 مسلم طالبات نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ یہی تمام لڑکیاں ہائی کورٹ میں بھی درخواست گزار تھی۔

دوسری جانب عدالت کے فیصلے کے بعد مسلم سماج میں ناراضگی پائی جا رہی ہے۔

عدالت نے کہا کہ حجاب اسلام کے مذہبی عمل کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ طلباء اسکول یونیفارم پہننے سے انکار نہیں کر سکتے۔ اسکول یونیفارم سسٹم کو برقرار رکھنے کے لیے ایک معقول پابندی عائد کی گئی ہے اور کرناٹک حکومت کے 5 فروری کے حکم کو کالعدم قرار دینے کے لیے کوئی کیس نہیں بنایا گیا ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ ہائی کورٹ نے کرناٹک حکومت کے فیصلے کو منظور کر لیا ہے۔ یوں ایک بار پھر سیاست میں ہلچل شروع ہوگئی۔

اس فیصلے کے بعد مختلف سیاسی رہنماؤں کے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو مذہبی آزادی کے خلاف بتایا ہے۔

جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ 'کرناٹک ہائی کورٹ کا حجاب پر پابندی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ انتہائی مایوس کن ہے۔ ایک جانب ہم خواتین کو بااختیار بنانے کی بات کرتے ہیں اور دوسری جانب انہیں ان کے انتخاب کے حق سے محروم کر رہے ہیں۔ یہ صرف مذہب کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ انتخاب کی آزادی کا مسئلہ ہے۔

عمر عبداللہ نے لکھا، یہ ایک مذاق ہے۔

اس کے علاوہ عمر عبداللہ نے بھی ہائی کورٹ کے فیصلے پر سوال اٹھائے اور لکھا کہ 'میں کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے سے بہت مایوس ہوں۔ آپ حجاب کے بارے میں کیا سوچ سکتے ہیں؟ بات صرف کپڑوں کی نہیں ہے۔ یہ عورت کے حق کے بارے میں ہے کہ وہ جس طرح کا لباس پہننا چاہتی ہے۔ عدالت نے اس بنیادی حق کو برقرار نہیں رکھا۔ یہ ایک مذاق ہے۔

دوسری جانب بی جے پی، کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو مسلم خواتین کے مفاد میں بتا رہی ہے۔

  • کیا ہے پورا معاملہ
  1. 31 دسمبر 2021: اڈوپی کے گورنمنٹ پی یو کالج میں حجاب پہنی ہوئیں 6 لڑکیوں کو کلاس میں آنے سے روک دیا گیا۔ جس کے بعد کالج کے باہر مظاہرے شروع ہو گئے۔
  2. 19 جنوری 2022: کالج انتظامیہ نے طالبات، ان کے والدین اور عہدیداروں کے ساتھ میٹنگ کی۔ اس ملاقات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
  3. 26 جنوری 2022: دوبارہ میٹنگ ہوئی۔ اُڈوپی کے ایم ایل اے رگھوپتی بھٹ نے کہا کہ جو طالبات حجاب کے بغیر نہیں آسکتی انہیں آن لائن پڑھنا چاہیے۔
  4. 27 جنوری 2022: طالبات نے آن لائن کلاس میں شرکت سے انکار کر دیا۔
  5. 2 فروری 2022: اُڈوپی کے کنڈا پور علاقے میں واقع سرکاری کالج میں بھی حجاب کا تنازعہ گرم ہوگیا۔
  6. 3 فروری 2022: کنڈا پور کے گورنمنٹ پی یو کالج میں حجاب پہننے والی لڑکیوں کو روک دیا گیا۔
  7. 5 فروری 2022: راہل گاندھی حجاب پہننے والی طالبات کی حمایت میں سامنے آئے۔ راہل گاندھی نے ٹویٹ کیا کہ 'تعلیم کے راستے میں حجاب لا کر بھارت کی بیٹیوں کا مستقبل چھینا جا رہا ہے۔
  8. 8 فروری 2022: کرناٹک میں کئی مقامات پر جھڑپیں ہوئیں۔
  9. شیواموگا سے ایک ویڈیو سامنے آیا ہے جس میں کالج کے ایک طالب علم کو ترنگے کے کھمبے پر بھگوا جھنڈا لگاتے ہوئے دیکھا گیا۔
  10. کئی مقامات سے پتھراؤ کی بھی اطلاعات تھیں جب کہ منڈیا میں برقعہ پوش طالبہ کے ساتھ بدتمیزی کی گئی۔
  11. اس کے سامنے بھگوا شال اور مفلر پہنے طلبہ نے جے شری رام کے نعرے لگائے۔

واضح رہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ کی خصوصی بینچ نے حجاب کیس کا فیصلہ سنایا۔ عدالت نے حجاب کو اسلام کا اہم حصہ نہیں بتایا۔ عدالت کے مطابق حجاب اسلام کا اہم پارٹ نہیں ہے۔

ہائی کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو چیلنج کرنے والی تمام درخواستوں کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا کہ حجاب پہننا اسلام میں ضروری نہیں ہے۔

کرناٹک ہائی کورٹ کے مطابق حجاب کو اسلام میں ضروری نہیں مانا گیا ہے۔ عدالت نے حجاب پہننے سے متعلق دائر تمام عرضیوں کو خارج کردیا۔

واضح رہے کہ کرناٹک کے کچھ کالجز میں عائد حجاب پر پابندی کو ہائی کورٹ نے برقرار رکھا اور تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو چیلنج کرنے والی تمام عرضیوں کو خارج کر دیا۔

عدالت نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ حجاب پہننا اسلام میں ضروری عمل نہیں ہے، لہٰذا ڈریس کوڈ سے متعلق حکومت کی ہدایت کو برقرار رکھا جانا چاہیے۔

ہائی کورٹ نے مندرجہ ذیل چند چیزوں پر نمایاں طور پر زور دیتے ہوئے کہا

  1. مسلم خواتین کا حجاب پہننا اسلام میں ضروری عمل نہیں ہے۔
  2. اسکول یونیفارم، ایک معقول عمل ہے جس پر طلبا اعتراض نہیں کرسکتے۔
  3. حکومت کو حکمنامہ جاری کرنے کا اختیار حاصل ہے۔

ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔

اس معاملے میں چیف جسٹس ریتو راج اوستھی، جسٹس کرشنا ایس ڈکشٹ اور جسٹس جے ایم قاضی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے اپنا فیصلہ سنایا۔

حجاب کیس کے فیصلے سے قبل ہی بنگلور میں دفعہ 144 نافذ کو نافذ کردیا گیا تھا اور تمام تعلیمی اداروں کو بھی بند کردیا گیا تھا۔

قبل ازیں ہائی کورٹ نے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو چیلنج کرنے والی مختلف درخواستوں پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ اس سے قبل چیف جسٹس ریتو راج اوستھی، جسٹس کرشنا ایس ڈکشٹ اور جسٹس جے ایم قاضی پر مشتمل تین ججوں کی بنچ تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو چیلنج کرنے والی مختلف درخواستوں کی سماعت کر رہی تھی۔

کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب معاملے پر اپنا فیصلہ سنایا۔ Karnataka High Court Verdict Over Hijab عدالت نے فیصلے میں کہا کہ اسلام میں حجاب پہننا ضروری نہیں ہے، اس لیے اسکول اور کالجز میں حجاب پر عائد پابندی جائز ہے۔

اس کے بعد کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی ایک عرضی سُپریم کورٹ میں داخل کی گئی ہے۔ کالجز کی 6 مسلم طالبات نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ یہی تمام لڑکیاں ہائی کورٹ میں بھی درخواست گزار تھی۔

دوسری جانب عدالت کے فیصلے کے بعد مسلم سماج میں ناراضگی پائی جا رہی ہے۔

عدالت نے کہا کہ حجاب اسلام کے مذہبی عمل کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ طلباء اسکول یونیفارم پہننے سے انکار نہیں کر سکتے۔ اسکول یونیفارم سسٹم کو برقرار رکھنے کے لیے ایک معقول پابندی عائد کی گئی ہے اور کرناٹک حکومت کے 5 فروری کے حکم کو کالعدم قرار دینے کے لیے کوئی کیس نہیں بنایا گیا ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ ہائی کورٹ نے کرناٹک حکومت کے فیصلے کو منظور کر لیا ہے۔ یوں ایک بار پھر سیاست میں ہلچل شروع ہوگئی۔

اس فیصلے کے بعد مختلف سیاسی رہنماؤں کے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو مذہبی آزادی کے خلاف بتایا ہے۔

جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ 'کرناٹک ہائی کورٹ کا حجاب پر پابندی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ انتہائی مایوس کن ہے۔ ایک جانب ہم خواتین کو بااختیار بنانے کی بات کرتے ہیں اور دوسری جانب انہیں ان کے انتخاب کے حق سے محروم کر رہے ہیں۔ یہ صرف مذہب کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ انتخاب کی آزادی کا مسئلہ ہے۔

عمر عبداللہ نے لکھا، یہ ایک مذاق ہے۔

اس کے علاوہ عمر عبداللہ نے بھی ہائی کورٹ کے فیصلے پر سوال اٹھائے اور لکھا کہ 'میں کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے سے بہت مایوس ہوں۔ آپ حجاب کے بارے میں کیا سوچ سکتے ہیں؟ بات صرف کپڑوں کی نہیں ہے۔ یہ عورت کے حق کے بارے میں ہے کہ وہ جس طرح کا لباس پہننا چاہتی ہے۔ عدالت نے اس بنیادی حق کو برقرار نہیں رکھا۔ یہ ایک مذاق ہے۔

دوسری جانب بی جے پی، کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو مسلم خواتین کے مفاد میں بتا رہی ہے۔

  • کیا ہے پورا معاملہ
  1. 31 دسمبر 2021: اڈوپی کے گورنمنٹ پی یو کالج میں حجاب پہنی ہوئیں 6 لڑکیوں کو کلاس میں آنے سے روک دیا گیا۔ جس کے بعد کالج کے باہر مظاہرے شروع ہو گئے۔
  2. 19 جنوری 2022: کالج انتظامیہ نے طالبات، ان کے والدین اور عہدیداروں کے ساتھ میٹنگ کی۔ اس ملاقات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
  3. 26 جنوری 2022: دوبارہ میٹنگ ہوئی۔ اُڈوپی کے ایم ایل اے رگھوپتی بھٹ نے کہا کہ جو طالبات حجاب کے بغیر نہیں آسکتی انہیں آن لائن پڑھنا چاہیے۔
  4. 27 جنوری 2022: طالبات نے آن لائن کلاس میں شرکت سے انکار کر دیا۔
  5. 2 فروری 2022: اُڈوپی کے کنڈا پور علاقے میں واقع سرکاری کالج میں بھی حجاب کا تنازعہ گرم ہوگیا۔
  6. 3 فروری 2022: کنڈا پور کے گورنمنٹ پی یو کالج میں حجاب پہننے والی لڑکیوں کو روک دیا گیا۔
  7. 5 فروری 2022: راہل گاندھی حجاب پہننے والی طالبات کی حمایت میں سامنے آئے۔ راہل گاندھی نے ٹویٹ کیا کہ 'تعلیم کے راستے میں حجاب لا کر بھارت کی بیٹیوں کا مستقبل چھینا جا رہا ہے۔
  8. 8 فروری 2022: کرناٹک میں کئی مقامات پر جھڑپیں ہوئیں۔
  9. شیواموگا سے ایک ویڈیو سامنے آیا ہے جس میں کالج کے ایک طالب علم کو ترنگے کے کھمبے پر بھگوا جھنڈا لگاتے ہوئے دیکھا گیا۔
  10. کئی مقامات سے پتھراؤ کی بھی اطلاعات تھیں جب کہ منڈیا میں برقعہ پوش طالبہ کے ساتھ بدتمیزی کی گئی۔
  11. اس کے سامنے بھگوا شال اور مفلر پہنے طلبہ نے جے شری رام کے نعرے لگائے۔

واضح رہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ کی خصوصی بینچ نے حجاب کیس کا فیصلہ سنایا۔ عدالت نے حجاب کو اسلام کا اہم حصہ نہیں بتایا۔ عدالت کے مطابق حجاب اسلام کا اہم پارٹ نہیں ہے۔

ہائی کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو چیلنج کرنے والی تمام درخواستوں کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا کہ حجاب پہننا اسلام میں ضروری نہیں ہے۔

کرناٹک ہائی کورٹ کے مطابق حجاب کو اسلام میں ضروری نہیں مانا گیا ہے۔ عدالت نے حجاب پہننے سے متعلق دائر تمام عرضیوں کو خارج کردیا۔

واضح رہے کہ کرناٹک کے کچھ کالجز میں عائد حجاب پر پابندی کو ہائی کورٹ نے برقرار رکھا اور تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو چیلنج کرنے والی تمام عرضیوں کو خارج کر دیا۔

عدالت نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ حجاب پہننا اسلام میں ضروری عمل نہیں ہے، لہٰذا ڈریس کوڈ سے متعلق حکومت کی ہدایت کو برقرار رکھا جانا چاہیے۔

ہائی کورٹ نے مندرجہ ذیل چند چیزوں پر نمایاں طور پر زور دیتے ہوئے کہا

  1. مسلم خواتین کا حجاب پہننا اسلام میں ضروری عمل نہیں ہے۔
  2. اسکول یونیفارم، ایک معقول عمل ہے جس پر طلبا اعتراض نہیں کرسکتے۔
  3. حکومت کو حکمنامہ جاری کرنے کا اختیار حاصل ہے۔

ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔

اس معاملے میں چیف جسٹس ریتو راج اوستھی، جسٹس کرشنا ایس ڈکشٹ اور جسٹس جے ایم قاضی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے اپنا فیصلہ سنایا۔

حجاب کیس کے فیصلے سے قبل ہی بنگلور میں دفعہ 144 نافذ کو نافذ کردیا گیا تھا اور تمام تعلیمی اداروں کو بھی بند کردیا گیا تھا۔

قبل ازیں ہائی کورٹ نے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو چیلنج کرنے والی مختلف درخواستوں پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ اس سے قبل چیف جسٹس ریتو راج اوستھی، جسٹس کرشنا ایس ڈکشٹ اور جسٹس جے ایم قاضی پر مشتمل تین ججوں کی بنچ تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو چیلنج کرنے والی مختلف درخواستوں کی سماعت کر رہی تھی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.