ETV Bharat / state

بیدر میں جماعت اسلامی کا حقوق انسانی موضوع پر سمپوزیم

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Dec 12, 2023, 10:54 AM IST

مذہب ِ اسلام عظمت ِ انسانی، آزادئ ضمیر، تحفظ ِ انسانیت اور حقوقِ انسانی کا علمبردار ہے۔ امریکہ، برطانیہ دنیا میں حقوقِ انسانی کے جھوٹے چمپیئن ہیں، غزہ میں انسانی حقوق کی پامالیوں میں مرتکب بھارت میں بھی انسانی حقوق کی پامالی اور تحفظِ جان کے حالات دگرگوں اور انتہائی تشویشناک ہیں۔ بیدر میں جماعت اسلامی کے حقوق انسانی موضوع پر سمپوزیم میں ان خیالات کا اظہار کیا گیا۔ Jamaat e Islami Symposium on Human Rights in Bidar

Jamaat e Islami Symposium on Human Rights in Bidar
Jamaat e Islami Symposium on Human Rights in Bidar

بیدر: روئے زمین پر صرف مذہبِ اسلام ہی عظمتِ انسانی، آزادئ ضمیر، تحفظِ انسانیت اور حقوقِ انسانی کا علمبردار ہے، جس طرح مذہبِ اسلام میں حقوقِ انسانی پر واضح تعلیمات اور احکامات ملتے ہیں، ویسے کسی اور مذہب میں نہیں ملتے۔ عام طور پر مذہب کے سلسلہ میں لوگوں کا یہ تصور، تعریف اور یہ تشریح پائی جاتی ہے کہ مذہب اللہ اور بندے کے درمیان تعلق کا معاملہ ہے۔ مذہب کی تعریف عام طور پریہی کی جاتی ہے، لیکن اسلام کے سلسلہ میں یہ بات صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ اسلام کے اندر جہاں پر اللہ اور بندے کے درمیان میں تعلق ہے تو بندوں اور بندوں کے درمیان میں بھی ایک تعلق اور حقوق کی تعلیمات اور احکامات ہیں۔ جس میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو بیان کیا گیا ہے۔ اس لیے مذہبِ اسلام کو عام مذاہب کی طرح اس کی تشریح کرنا ہرگز مناسب نہیں، چونکہ اسلام نے انسانوں کو جو بنیادی حقوق عطا کیے ہیں، ان میں سے سب سے پہلا حق تحفظ جان کا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

عزت و آبرو کی حفاظت ہماری اخلاقی ذمہ داری، مولانا حامد محمد خان

جب انسان زندہ رہیں گے تو ہی حقوق کی بات ہوگی۔ اس لیے حرمت جان میں کوئی آدمی کسی آدمی کو قتل نہیں کر سکتا۔ قران کہتا ہے کہ اگر ایسا شخص جس نے نہ تو کسی کا قتل کیا نہ تو زمین کے اوپر فساد برپا کیا اور اس فرد کا کسی نے قتل کر دیا تو قاتل نے گویا کہ سارے انسانوں کا قتل کر دیا۔ ایک آدمی کا ناحق قتل سیویر قسم کا کرائم (خطرناک جرم) ہے، جو ناقابلِ معافی ہے۔ اور کہا گیا کہ جس نے کسی ایک زندگی (چاہے وہ پانی، آگ، چھری، گولی، بندوق، بم، ہتھیار سے) بچائی تو گویا اس نے سارے انسانوں کی زندگی بچائی۔ چونکہ اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے، انسانی زندگی کے لیے تمام پرامن باتیں قواعد، مسائل اور قانون قرآن میں موجود ہیں۔ ان خیالات کا اظہار حامد محمد خان سابق امیر حلقہ جماعت ِ اسلامی ہند، تلنگانہ نے یہاں بیدر میں جماعت ِ اسلامی ہند، شہر بیدر کے زیر اہتمام ”حقوق انسانی“ موضوع پر سمپوزیم کے صدارتی خطاب میں کیا۔

حامد محمد خان نے کہا کہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے لیے مختلف قسم کی کوششوں کے نتیجہ میں بالاخر 10 دسمبر 1948 کو اقوام متحدہ نے ایک منشور جاری کیا اور جنرل اسمبلی کے اندر جب پیش کیا گیا تو صرف 48 ممالک نے اس کو قبول کیا اور باقی کے 8 ممالک نے اس کا واک آؤٹ کیا جس کے اندر روس بھی شامل تھا۔ عمل درآمد کی صورتحال کا جائزہ لینے اور تحفظ انسانی حقوق کے لیے کمیشن برائے انسانی حقوق بنایا گیا، ہمارے ملک میں بھی انسانی حقوق کمیشن ہے لیکن اس کی کیا کارکردگی ہے کبھی معلوم نہیں ہوتی۔ اس کے اندر صرف خواہشات ہیں اس کے اندر سینکشن اتھارٹی نہیں پائی جاتی، اس کے اندر کسی قسم کی جواب دہی نہیں پائی جاتی۔ خواہشات ہی خواہشات ہیں۔ یاد رہے حقوقِ انسانی کو کوئی انسان متعین نہیں کر سکتا۔ انسانی حقوق کو متعین کرنے والا صرف انسان کو پیدا کرنے والا ہی ہو سکتا ہے اور ہم نے جب کبھی اپنے حقوق مقرر یا متعین کرنے کی کوشش کی تو ٹھوکریں کھائیں اور آج بھی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ دنیا میں ’حقوقِ انسانی‘ کے چمپیئن اور دعویداری کرتے ہیں، جب کہ غزہ میں انسانی حقوق کی پامالیوں میں وہ برابر کے مرتکب اور مجرم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک بھارت میں بھی انسانی حقوق کی پامالی اور تحفظِ جان کے حالات دگرگوں اور انتہائی تشویشناک ہیں، خواتین کے خلاف میں ہر 32 منٹ میں ایک زنا کا واقعہ ہوتا ہے اس کی شرح میں مسلسل 1.8 کا اضافہ ہونے لگا ہے، جرم کرنے والے 39 فیصد لوگ پڑوسی یا قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں۔ آج بھی دلہنوں کو جلانے کے واقعات میں 1.28 فیصد اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے، دلہنوں کو جلا یا جارہا ہے۔ ہر 17 منٹ کے اندر ایک بچی جنسی ہوس کا شکار ہو جاتی ہے اور ہر 10 منٹ میں ایک اغوا ہو جاتا ہے، 52.7 فیصد قتل ِ جنین کے واقعات پائے جاتے ہیں۔ ذات پات کی تفریق آج بھی موجود ہے، 46 مقامات گجرات کے اندر ایسے ہیں جہاں پر دلتوں کے پانی لینے کے مقامات بالکل الگ ہیں۔ حقوق انسانی کمیشن کے اندر موجود دستیاب ڈیٹا کے مطابق ہندوستان کے اندر جیلوں میں آج کی تاریخ میں 4 لاکھ 4 ہزار 9 لوگ جیلوں کے اندر بند ہیں، جن میں سے 2 لاکھ 23 ہزار لوگ ایسے ہیں، جن پر ابھی تک ٹرائل تک نہیں ہوا اور وہ کسی جرم کے بغیر جیلوں کے اندر بند پڑے ہوئے ہیں۔ اور پھر فرضی انکاؤنٹر، جھڑپیں اور پولیس لاک اپ کے اندر کئی لوگ مار دیے جاتے ہیں۔

موصوف نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ٹیررازم کیوں پیدا ہوتا ہے؟ انصاف کی خاطر بدلہ کی بھاؤنا کو تو فلموں میں بھی بتایا جاتا ہے کہ کوئی ہیرو ہے جس کے بچپن میں اس کے باپ کو کسی نے مارا اور وہ بدلہ لینے کے لیے نکلا اور پھر اس کو مار دیا۔ یاد رکھیے انصاف میں تاخیر کے نتیجہ میں ہی ردعمل کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ وقت پر انصاف انسانی فطرت میں شامل اور مطلوب ہے۔ یہاں عدالتوں سے انصاف کے بجائے صرف تاریخ پر تاریخ ملتی ہے۔ عمر خالد 13 مرتبہ سے زائد سپریم کورٹ حاضر ہوا ہے اور اس کو کیا ملا؟ پھر تاریخ میں ابھی تک الزام ثابت نہیں ہوا۔ ملک کی عدالتوں کے اندر جو پینڈنگ کیسز پائے جاتے ہیں وہ ایک اندازے کے مطابق 35 ملین ہیں، موجودہ جتنے ججز، وکلا اور انفراسٹرکچر ہے وہ سب کا اگر مسلسل استعمال کیا جائے تو تمام جو پینڈنگ فیصلے ہیں اس کو فیصل ہونے کے لیے 350 سال چاہیے یا لگ جائیں گے۔

انصاف میں تاخیر بھی انصاف نہ ملنے کے برابر ہے۔ ملک میں فرقہ وارانہ فسادات اور تعصب، ماب لنچنگ کے واقعات روز بروز بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ سب حقوقِ انسانی کی پامالیاں ہی ہیں جو آئے دن بڑھتی ہی چلی جارہی ہیں۔ ایڈووکیٹ شری بی کرشنپا سابق صدر ضلع بار ایسوسی ایشن بیدر، نے اپنے خطاب میں کہا کہ انسانی حقوق کے بارے میں سب کو جاننا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔ ڈاکٹر جگن ناتھ ڈائریکٹر کرناٹک جانپد اسائیہ یونیورسٹی پی جی سنٹر بیدر، نے اپنے خطاب میں کہا کہ تمام مذاہب کے عظیم انسانوں اور پیغمبروں نے انسانی اتحاد کو ترجیح دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ایک جامع معاشرے کی تعمیر کے لیے سخت محنت کی۔ ایڈووکیٹ شری بابو راؤ سینئر لیڈر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے اپنے خطاب میں کہا کہ افسوس کا اظہار کیا کہ حکومتی سطح پر فرقہ پرستی، کارپوریٹ مفاداتی انتظامیہ اور عوام دشمن قوانین کی وجہ سے انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔

شہ نشین پر مہمانان خصوصی کی حیثیت سے شری کشن راؤ مؤظف ٹیچر، رفیق احمد ناظم علاقہ جماعت اسلامی ہند، کلبرگی، مولانا محمد مونس کرمانی صدر مجلس العلماء بیدر، محمد اقبال احمد ناظم ضلع جماعتِ اسلامی بیدر، عنایت الرحمان سندھے سابق افسر محکمۂ تعلیمات، محمد سیف الدین صدر مقامی ایس آئی او بیدر شریکِ سمپوزیم رہے۔ اس موقع پر ویربھدرپا اپن کو تہنیت سے نوازا گیا۔ محمد معظم امیر مقامی جماعت ِ اسلامی ہند، شہر بیدر نے افتتاحی کلمات پیش کیا۔ جس میں انہوں نے سمپوزیم کے اغراض و مقاصد کو بیان کیا۔ محمد ثناء اللہ صدیقی کی قرات ِکلام پاک سے سمپوزیم کا آغاز ہوا، جس کی ترجمانی کنڑی زبان میں محمد جاوید احمد نے کی۔ محمد عارف الدین نے تشکری کلمات ادا کیے۔ نظامت کے فرائض محمد نظام الدین نے انجام دیے۔ حقوقِ انسانی پر منعقدہ اس سمپوزیم میں بلا تفریق مذہب وملت مرد وخواتین کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

بیدر: روئے زمین پر صرف مذہبِ اسلام ہی عظمتِ انسانی، آزادئ ضمیر، تحفظِ انسانیت اور حقوقِ انسانی کا علمبردار ہے، جس طرح مذہبِ اسلام میں حقوقِ انسانی پر واضح تعلیمات اور احکامات ملتے ہیں، ویسے کسی اور مذہب میں نہیں ملتے۔ عام طور پر مذہب کے سلسلہ میں لوگوں کا یہ تصور، تعریف اور یہ تشریح پائی جاتی ہے کہ مذہب اللہ اور بندے کے درمیان تعلق کا معاملہ ہے۔ مذہب کی تعریف عام طور پریہی کی جاتی ہے، لیکن اسلام کے سلسلہ میں یہ بات صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ اسلام کے اندر جہاں پر اللہ اور بندے کے درمیان میں تعلق ہے تو بندوں اور بندوں کے درمیان میں بھی ایک تعلق اور حقوق کی تعلیمات اور احکامات ہیں۔ جس میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو بیان کیا گیا ہے۔ اس لیے مذہبِ اسلام کو عام مذاہب کی طرح اس کی تشریح کرنا ہرگز مناسب نہیں، چونکہ اسلام نے انسانوں کو جو بنیادی حقوق عطا کیے ہیں، ان میں سے سب سے پہلا حق تحفظ جان کا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

عزت و آبرو کی حفاظت ہماری اخلاقی ذمہ داری، مولانا حامد محمد خان

جب انسان زندہ رہیں گے تو ہی حقوق کی بات ہوگی۔ اس لیے حرمت جان میں کوئی آدمی کسی آدمی کو قتل نہیں کر سکتا۔ قران کہتا ہے کہ اگر ایسا شخص جس نے نہ تو کسی کا قتل کیا نہ تو زمین کے اوپر فساد برپا کیا اور اس فرد کا کسی نے قتل کر دیا تو قاتل نے گویا کہ سارے انسانوں کا قتل کر دیا۔ ایک آدمی کا ناحق قتل سیویر قسم کا کرائم (خطرناک جرم) ہے، جو ناقابلِ معافی ہے۔ اور کہا گیا کہ جس نے کسی ایک زندگی (چاہے وہ پانی، آگ، چھری، گولی، بندوق، بم، ہتھیار سے) بچائی تو گویا اس نے سارے انسانوں کی زندگی بچائی۔ چونکہ اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے، انسانی زندگی کے لیے تمام پرامن باتیں قواعد، مسائل اور قانون قرآن میں موجود ہیں۔ ان خیالات کا اظہار حامد محمد خان سابق امیر حلقہ جماعت ِ اسلامی ہند، تلنگانہ نے یہاں بیدر میں جماعت ِ اسلامی ہند، شہر بیدر کے زیر اہتمام ”حقوق انسانی“ موضوع پر سمپوزیم کے صدارتی خطاب میں کیا۔

حامد محمد خان نے کہا کہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے لیے مختلف قسم کی کوششوں کے نتیجہ میں بالاخر 10 دسمبر 1948 کو اقوام متحدہ نے ایک منشور جاری کیا اور جنرل اسمبلی کے اندر جب پیش کیا گیا تو صرف 48 ممالک نے اس کو قبول کیا اور باقی کے 8 ممالک نے اس کا واک آؤٹ کیا جس کے اندر روس بھی شامل تھا۔ عمل درآمد کی صورتحال کا جائزہ لینے اور تحفظ انسانی حقوق کے لیے کمیشن برائے انسانی حقوق بنایا گیا، ہمارے ملک میں بھی انسانی حقوق کمیشن ہے لیکن اس کی کیا کارکردگی ہے کبھی معلوم نہیں ہوتی۔ اس کے اندر صرف خواہشات ہیں اس کے اندر سینکشن اتھارٹی نہیں پائی جاتی، اس کے اندر کسی قسم کی جواب دہی نہیں پائی جاتی۔ خواہشات ہی خواہشات ہیں۔ یاد رہے حقوقِ انسانی کو کوئی انسان متعین نہیں کر سکتا۔ انسانی حقوق کو متعین کرنے والا صرف انسان کو پیدا کرنے والا ہی ہو سکتا ہے اور ہم نے جب کبھی اپنے حقوق مقرر یا متعین کرنے کی کوشش کی تو ٹھوکریں کھائیں اور آج بھی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ دنیا میں ’حقوقِ انسانی‘ کے چمپیئن اور دعویداری کرتے ہیں، جب کہ غزہ میں انسانی حقوق کی پامالیوں میں وہ برابر کے مرتکب اور مجرم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک بھارت میں بھی انسانی حقوق کی پامالی اور تحفظِ جان کے حالات دگرگوں اور انتہائی تشویشناک ہیں، خواتین کے خلاف میں ہر 32 منٹ میں ایک زنا کا واقعہ ہوتا ہے اس کی شرح میں مسلسل 1.8 کا اضافہ ہونے لگا ہے، جرم کرنے والے 39 فیصد لوگ پڑوسی یا قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں۔ آج بھی دلہنوں کو جلانے کے واقعات میں 1.28 فیصد اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے، دلہنوں کو جلا یا جارہا ہے۔ ہر 17 منٹ کے اندر ایک بچی جنسی ہوس کا شکار ہو جاتی ہے اور ہر 10 منٹ میں ایک اغوا ہو جاتا ہے، 52.7 فیصد قتل ِ جنین کے واقعات پائے جاتے ہیں۔ ذات پات کی تفریق آج بھی موجود ہے، 46 مقامات گجرات کے اندر ایسے ہیں جہاں پر دلتوں کے پانی لینے کے مقامات بالکل الگ ہیں۔ حقوق انسانی کمیشن کے اندر موجود دستیاب ڈیٹا کے مطابق ہندوستان کے اندر جیلوں میں آج کی تاریخ میں 4 لاکھ 4 ہزار 9 لوگ جیلوں کے اندر بند ہیں، جن میں سے 2 لاکھ 23 ہزار لوگ ایسے ہیں، جن پر ابھی تک ٹرائل تک نہیں ہوا اور وہ کسی جرم کے بغیر جیلوں کے اندر بند پڑے ہوئے ہیں۔ اور پھر فرضی انکاؤنٹر، جھڑپیں اور پولیس لاک اپ کے اندر کئی لوگ مار دیے جاتے ہیں۔

موصوف نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ٹیررازم کیوں پیدا ہوتا ہے؟ انصاف کی خاطر بدلہ کی بھاؤنا کو تو فلموں میں بھی بتایا جاتا ہے کہ کوئی ہیرو ہے جس کے بچپن میں اس کے باپ کو کسی نے مارا اور وہ بدلہ لینے کے لیے نکلا اور پھر اس کو مار دیا۔ یاد رکھیے انصاف میں تاخیر کے نتیجہ میں ہی ردعمل کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ وقت پر انصاف انسانی فطرت میں شامل اور مطلوب ہے۔ یہاں عدالتوں سے انصاف کے بجائے صرف تاریخ پر تاریخ ملتی ہے۔ عمر خالد 13 مرتبہ سے زائد سپریم کورٹ حاضر ہوا ہے اور اس کو کیا ملا؟ پھر تاریخ میں ابھی تک الزام ثابت نہیں ہوا۔ ملک کی عدالتوں کے اندر جو پینڈنگ کیسز پائے جاتے ہیں وہ ایک اندازے کے مطابق 35 ملین ہیں، موجودہ جتنے ججز، وکلا اور انفراسٹرکچر ہے وہ سب کا اگر مسلسل استعمال کیا جائے تو تمام جو پینڈنگ فیصلے ہیں اس کو فیصل ہونے کے لیے 350 سال چاہیے یا لگ جائیں گے۔

انصاف میں تاخیر بھی انصاف نہ ملنے کے برابر ہے۔ ملک میں فرقہ وارانہ فسادات اور تعصب، ماب لنچنگ کے واقعات روز بروز بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ سب حقوقِ انسانی کی پامالیاں ہی ہیں جو آئے دن بڑھتی ہی چلی جارہی ہیں۔ ایڈووکیٹ شری بی کرشنپا سابق صدر ضلع بار ایسوسی ایشن بیدر، نے اپنے خطاب میں کہا کہ انسانی حقوق کے بارے میں سب کو جاننا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔ ڈاکٹر جگن ناتھ ڈائریکٹر کرناٹک جانپد اسائیہ یونیورسٹی پی جی سنٹر بیدر، نے اپنے خطاب میں کہا کہ تمام مذاہب کے عظیم انسانوں اور پیغمبروں نے انسانی اتحاد کو ترجیح دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ایک جامع معاشرے کی تعمیر کے لیے سخت محنت کی۔ ایڈووکیٹ شری بابو راؤ سینئر لیڈر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے اپنے خطاب میں کہا کہ افسوس کا اظہار کیا کہ حکومتی سطح پر فرقہ پرستی، کارپوریٹ مفاداتی انتظامیہ اور عوام دشمن قوانین کی وجہ سے انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔

شہ نشین پر مہمانان خصوصی کی حیثیت سے شری کشن راؤ مؤظف ٹیچر، رفیق احمد ناظم علاقہ جماعت اسلامی ہند، کلبرگی، مولانا محمد مونس کرمانی صدر مجلس العلماء بیدر، محمد اقبال احمد ناظم ضلع جماعتِ اسلامی بیدر، عنایت الرحمان سندھے سابق افسر محکمۂ تعلیمات، محمد سیف الدین صدر مقامی ایس آئی او بیدر شریکِ سمپوزیم رہے۔ اس موقع پر ویربھدرپا اپن کو تہنیت سے نوازا گیا۔ محمد معظم امیر مقامی جماعت ِ اسلامی ہند، شہر بیدر نے افتتاحی کلمات پیش کیا۔ جس میں انہوں نے سمپوزیم کے اغراض و مقاصد کو بیان کیا۔ محمد ثناء اللہ صدیقی کی قرات ِکلام پاک سے سمپوزیم کا آغاز ہوا، جس کی ترجمانی کنڑی زبان میں محمد جاوید احمد نے کی۔ محمد عارف الدین نے تشکری کلمات ادا کیے۔ نظامت کے فرائض محمد نظام الدین نے انجام دیے۔ حقوقِ انسانی پر منعقدہ اس سمپوزیم میں بلا تفریق مذہب وملت مرد وخواتین کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.