ڈاکٹر محمد سعد بیلگامی نے کہا کہ کسی بھی قوم کے پرسنل لا کو تبدیل کرنے کے لیے اس قوم کا اعتماد حاصل نہیں کیا جاتا یا اس قوم کی اکثریت اس کے حق میں راضی نہیں ہوتی۔ اسے نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ اس سلسلے میں مسلمانوں کو اعتماد میں لیے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھایا جاسکتا۔
ڈاکٹر سعد بیلگامی نے کہا کہ یونیفارم سول کوڈ کے متعلق جو نیشنل انٹیگریشن یا اتحاد کی بات کہی جارہی ہے، ممکن ہے کہ یہ شرارت بھی ہوسکتی ہے۔ چنانچہ یونیفارم سول کوڈ جیسے اقدامات ملک کی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو شدید نقصان پہنچائیں گے۔
اس سلسلے میں ڈاکٹر سعد بلگامی نے مزید کہا کہ مسلم پرسنل لا ایک قانون الٰہی ہے جس میں کوئی نقص نہیں ہے۔ تاہم ان قوانین پر عمل پیرا ہونے میں دقتیں ہیں۔ چونکہ مسلمانوں میں غربت ہے، تعلیمی پسماندگی ہے اور جہالت ہے جس کی وجہ سے وہ مسلم پرسنل لا پر صحیح طور پر عمل پیرا نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہ مسائل میں مبتلا ہیں۔
لہٰذا اس کا حل یہ نہیں ہے کہ مسلم پرسنل لا کو تبدیل یا ختم کریں بلکہ مسلمانوں کے سماجی، تعلیمی و معاشی حالات کو بہر کریں تاکہ وہ پرسنل لا پر عمل پیرا ہوں۔
یاد رہے کہ دہلی ہائی کورٹ کی جج پرتیبھا ایم سنگھ نے ایک طلاق کے معاملے کی سماعت کے دوران کہا تھا کہ ملک اب مذہب، ذات پات اور طبقہ کی تفریق سے بالاتر ہوچکا ہے۔ لہذا یہاں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھیں: 'یونیفارم سول کوڈ دستور ہند کے خلاف ہے'
جسٹس پرتبھا ایم سنگھ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا کہ آج کا بھارت مذہب، ذات، قوم سے بالاتر ہو چکا ہے۔ جدید بھارت میں مذہب اور ذاتوں کی بندشیں تیزی سے ٹوٹ رہی ہیں۔ تیزی واقع ہو رہی ان تبدیلیوں کے سبب بین المذاہب اور بین الطبقات شادیوں اور طلاق میں دقتیں پیش آ رہی ہیں۔