بیدر : ریاست کرناٹک کے ضلع بیدر کے نثر نگار شاہ فصیح اللہ قادری عرف مقیت گزشتہ کئی سالوں سے اردو ادب کی خاموش خدمت کرتے آ رہے ہیں۔ نثر نگار شاہ فصیح اللہ قادری عرف مقیت نے خصوصی گفتگو کے دوران بتایا کہ مجھے بچپن ہی سے لکھنے اور پڑھنے کا شوق رہا ہے۔ سرکاری ملازمت کے دوران بھی میں نے اپنے لکھنے کے شوق کو جاری رکھا۔ لیکن ملازمت کے دوران مجھے ادبی محفلوں میں شرکت کرنے یا اپنے مضامین کی کتابوں کو شائع کرنے کا وقت نہیں ملا ریٹائرمنٹ کے بعد میں نے اپنے لکھے ہوئے اصلاحی ادبی سماجی و دینی مضامین کو کتابوں کی شکل دی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ میری کتابیں رنگ برنگے پھول، مہکتا گلزار،مہکتے کلیاں، کتاب مجموعہ، صدف شائع ہو کر منظر عام پر آئی ہے۔ میرے ادبی سفر میں سید مجیب الرحمن اور نامور ادیب شاعر نقاد یوسف رحیم بدری کا اہم کردار رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ مولانا مودودی کے مضامین کا میں نے کافی مطالعہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ پریم چند اور کشن چندر کی ناول میرے لکھنے میں کافی معاون و مدد گار ثابت ہوئی ہیں۔ ان قلم کاروں کے تخلیقات سے متاثر ہو کر میں نے لکھنا شروع کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کے لٹریچرز کابھی میں نے کافی مطالعہ کیا ہے۔
مذہبی اصلاحی مضامین لکھنے کے مقصد کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ میرے لکھنے کا واحد مقصد یہ ہے ،کہ سماج کی اصلاح ہو اور بالخصوص نوجوانوں میں اپنے مذہب قوم اور وطن کو لے کر سنجیدگیہو اور اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی ادا کرنے کی صلاحیت پیدا کرے۔مزید بتایا کہ نظم اور نثر کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ نظم کے مقابلے میں نثر لکھنا آسان ہے۔ نظم میں جو پابندیاں اور قوائد ہوتے ہیں ان کو ضابطہ طور پر ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ نثر کا میدان کافی وسیع ہے۔
مزید پڑھیں: Government Urdu Schools سرکاری اردو مدارس زبول حالی کا شکار
جدید ٹیکنالوجی اور الیکٹرانک کے دور میں پرنٹ میڈیا خصوصا کتابوں کے مطالعے کے متعلق شاہ فصیح اللہ قادری نے کہا کہ نوجوان نسل میں مطالعہ کا ذوق رفتہ رفتہ ختم ہو رہا ہے۔ کتابوں کی جگہ اب موبائل اور کمپیوٹر نے لے لی ہے۔ ایسے دور میں ہم کتابیں پرنٹ کر کے صرف اردو کی خدمت کر رہے ہیں اردو زبان کی محبت کتابیں لکھنے اور شائع کرنے پر مجبور کرتی ہے۔