بنگلور/میسور: ٹیپو سلطان کی نگری شہر میسور میں سیاسی اعتبار سے عوام خوش نظر نہیں آرہے ہیں کیوں کہ یہاں کے عوام کے مطابق گذشتہ تقریباً 20 برسوں سے کانگریس کے امیدوار تنویر سیٹھ نے کس قسم کا کوئی ترقیاتی کام نہیں کیا اور نہ ہی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے تئیں کوئی اقدامات اٹھائے ہیں۔ اب چوں کہ ریاست میں اسمبلی انتخابات 10 مئی کو منعقد کیے جانے ہیں، اس کے پیش نظر ای ٹی وی بھارت نے شہر میسور کے متعدد نوجوان علماء کرام سے بات کی اور جاننے کی کوشش کی کہ میسور نرسمہا راجا حلقے میں کیا مسائل ہیں اور حلقے کے کیا موضوعات ہیں جن کی بنا پر وہ ووٹ کریں گے۔ ان نوجوان علماء کرام کا کہنا ہے کہ کانگریس کے ایم ایل اے تنویر سیٹ گذشتہ تقریباً 20 برسوں سے حلقے کے ایم ایل اے ہیں، متعدد مرتبہ وزیر بھی رہے، اس کے باوجود علاقے میں کوئی ترقیاتی کام نہیں کیے۔
علما کرام نے الزام عائد کیا کہ ایم ایل اے تنویر سیٹھ نے کہا ہے کہ مسلمانوں نے انہیں ووٹ نہیں دیا بالکل وہ غیر مسلم ووٹوں سے جیتے ہیں. علماء نے کہا کہ تنویر سیٹ ایم ایل نہیں بلکہ ایک برساتی مینڈک ہے، جو کہ صرف انتخابات ہی میں نظر ٓآتے ہیں اور وہ 5 سالوں میں کسی کے ہاتھ نہیں لگتے۔ علماء کرام نے کہا کہ تنویر سیٹ کانگریا کے دور اقتدار میں وزیر برائے تعلیم رہے، لیکن اس کے باوجود حلقے میں ایک پری یونیورسٹی یا ڈگری کالج تک کا قیام نہیں کیا، جس کی وجہ سے حلقے کے بچے و بچیاں دور دراز دوسرے حلقے یا شہر میں پی یو یا ڈگری کالجوں میں جاکر پڑھنے کے لیے مجبور ہیں۔
علماء کرام کا کہنا ہے کہ پورے میسور شہر میں ایک اچھے سرکاری ہسپتال کا قیام نہیں کیا گیا جہاں شہری اہنا صحیح علاج کروا سکیں اور خاص طور پر حلقے میں ایک میٹرنٹی اسپتال تک نہیں، جس کی وجہ سے خواتین زچگی کے لیے دور کے علاقوں میں جانے پر مجبور ہیں۔ علماء کرام کا کہنا ہے کہ حلقے میں جو پرائیویٹ اسپتال ہیں وہاں جاکر علاج کرانے سے بیشتر لوگ اس لیے قاصر ہیں کہ یہاں ملت کا ایک بڑا طبقہ غربت کا شکار ہے۔ علماء کرام نے کہا کہ چوں کہ میسور ایک تاریخی شہر ہے، جہاں ٹیپو سلطان کا اقتدار رہا، ایک بڑی تعداد میں اوقافی جائدادیں ہیں، لیکن افسوس کہ ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، کہ کئی اوقافی جائدادوں پر ایم ایل اے تنویر سیٹ کے چاہنے والوں کا ناجائز قبضہ ہے اور ان جائدادوں کا منظم طریقے سے استحصال کیا جاتا ہے اور ان اوقافی اداروں کی آمدنی کا مستحق افراد وملت کے لیے کوئی فائدہ نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
انہوں نے کہا کہ صد افسوس کی بات یہ ہے کہ تنویر سیٹ وزیر برائے اوقاف رہے تھے اور موجودہ کرناٹک وقف بورڈ میں رکن بھی ہیں لیکن ان کے باوجود اوقافی اداروں کا استحصال جاری ہے۔ علماء کرام کہتے ہیں کہ تنویر سیٹ اگر چاہتے تو شہر کی اوقافی جائدادوں کو ملت کے لیے مفید بنا سکتے تھے. ان جائدادوں پر اعلیٰ تعلیم کے لیے کالجز و ہسپتالوں کا قیام ممکن تھا لیکن اس کے متعلق نہ کبھی بات کی گئی اور نہ ہی اس پر کوئی قدم اٹھایا گیا۔
علماء کرام نے بے روزگاری کا بھی مدعا اٹھایا اور کہا کہ اگر ایم ایل اے تنویر سیٹ کی جانب سے شہر میں کسی طرح چھوٹے انڈسٹریز یا کارخانے لگائے جاتے تو کم پڑھا لکھا طبقہ اس سے بہت ہی مستفید ہوتا لیکن اس کی طرف بھی کوئی توجہ نہیں دی جو کہ ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔ ان علماء کرام کا کہنا ہے کہ سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی کے امیدوار عبدالمجید نے حلقے کی ترقی کا ایک منظم منصوبہ تیار کیا ہے اور انہیں یقین ہے کہ ایس ڈی پی آئی اس منصوبے کو زمینی سطح پر نافذ کریں گے، لہٰذا علماء کرام نے عوام سے اپیل کی کہ وہ ایس ڈی پی آئی کے امیدوار عبد المجید کو ووٹ کریں تاکہ انہیں اس سنہرے موقع پر ایک موقع دیا جائے اور سماج میں بدلاؤ لایا جائے۔