ETV Bharat / state

Urdu Literature گلبرگہ میں آج بھی قومی یکجہتی کا کردار موجود

author img

By

Published : Aug 5, 2023, 2:09 PM IST

نامور تاریخ داں، معروف ادیب و سماجی کارکن ڈاکٹر محمد اکرم لاری آزاد نے کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اس سال اُردو میں پی ایچ ڈی کے لیے ایک بھی امیدوار نے رجسٹریشن نہیں کروایا۔ جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا یہ حال ہے تو شمالی ہند کی دیگر جامعات کا اللہ ہی حافظ ہے۔ Urdu Literature

Etv Bharat
Etv Bharat

گلبرگہ: نامور تاریخ داں معروف ادیب اور مقبول سماجی جہدکار ڈاکٹر محمد اکرم لاری آزاد نے کہا ہے کہ قومی یکجہتی دکنی شعراء کی دین ہے اور قومی یکجہتی کا کردار آج بھی گلبرگہ میں موجود ہیں۔ وہ انجمن ترقی اردو ہند شاخ گلبرگہ کے زیر اہتمام خواجہ بندہ نواز ایوان اردو میں "دکنی ادب اور ثقافت میں قومی یکجہتی کا پیغام ” کے زیر عنوان توسیعی لکچر دے رہے تھے۔ ڈاکٹر لاری آزاد نے شمالی ہند کے شعراء کا دکنی شعر اسے تقابل کرتے ہوئے کہا کہ شمالی ہند کے شعراء کے یہاں رومانیت اور عشق کے موضوعات بہت زیادہ پائے جاتے ہیں جب کہ دکنی شعراء کے یہاں عصری حسیت کے ساتھ ساتھ قومی یکجہتی کا پیغام نمایاں ہے۔

انھوں نے مزید ہے کہ صوفیا، سلاطین اور عام شعراء نے دکنی شاعری میں مذہبی عقائد، سلاطین کی قصیدہ خوانی کے ساتھ ساتھ مقامی باشندوں کو، جن مذہبی شخصیات سے عقیدت ہے ان کا ذکر بھی کیا ہے۔ بالخصوص کرشن، رام، سیتا، لکشمن سرسوتی کے کرداروں اور اخلاقی قدروں کو نہایت خوبصورت اور متاثر کن پیرائے میں پیش کیا ہے۔ اسی لیے دکنی زبان کو وہ قومی یکجہتی کی زبان تسلیم کرتے ہیں۔ ڈاکٹر لاری آزاد نے مزید کہا کہ صوفیاء اور سلاطین کی شاعری میں مقامی رنگ غالب ہے۔ اسلام نے انسانی یکجہتی کا جو پیغام دیا ہے، اس کو دکنی شعراء نے اپنی شاعری کے ذریعہ عام کیا گیا ہے۔

انھوں نے گلبرگہ کے ہندو مسلم یکجہتی کے ماحول کی بھر پور ستائش کرتے ہوئے اسے مثالی قرار دیا، اور کہا کہ دکنی شاعری میں قومی یکجہتی کے جو کردار ہیں 600 سال گزرنے کے باوجود وہ آج بھی زندہ نظر آرہے ہیں۔ ڈاکٹر لاری آزاد نے مزید کہا کہ دکنی سرمایہ ادب پر اہل دکن جتنا ناز کریں کم ہے، کیوں کہ دکنی ادب کو عالمگیر مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ انھوں نے اس بات پر سخت اظہار تاسف کیا کہ دکنی ادب کے شاہکار فن پاروں کے مخطوطات ہندوستان میں محفوظ اور دسیتاب نہیں ہیں بلکہ لندن، تاشقند، تہران اور دیگر یوروپی ممالک کے میوزیمس میں موجود ہیں اور فرنچ، جرمن، انگلش، دیوناگری کے علاوہ کئی زبانوں میں دکنی نثر و شاعری کے ترجمے شائع ہو چکے ہیں۔

مزید پڑھیں: اردو ادب میں مرثیہ اور نوحہ ایک اہم صنف

ڈاکٹر لاری آزاد نے اردو کو لشکری زبان قرار دینے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ یہ زبان صوفیاء اور تاجروں کی وجہ سے وجود میں آئی۔ انھوں نے اس سلسلہ میں کئی تاریخی حوالے اور دلائل بھی پیش کیے۔ ڈاکٹر لاری آزاد نےکامیاب ترین اجلاس کے انعقاد پر انجمن ترقی اردو گلبرگہ کے ارباب کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے گلبرگہ کے ادبی ماحول کی بھر پور ستائش کی۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ ماحول میں شمالی ہند میں اردو پروگراموں میں سامعین کی تعداد تشویشناک حد تک کم ہوتی جارہی ہے، لیکن گلبرگہ کے اس ادبی اجلاس میں سامعین کی کثیر تعداد میں شرکت ان کے لیے باعث حیرت و مسرت ہے۔ انھوں نے کہا کہ اردو دکن میں زندہ ہے، اس بات کا چہ چاوہ شمالی ہند کے اخبارات، ٹی وی چینلوں اور ادبی حلقوں میں ضرور کریں گے۔ ڈاکٹر لاری آزاد نے شمالی ہند میں اردو زبان و ادب کے مستقبل کو لے کر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اس سال اُردو میں پی ایچ ڈی کے لیے ایک بھی امیدوار نے رجسٹریشن نہیں کروایا۔ جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا یہ حال ہے تو شمالی ہند کی دیگر جامعات کا اللہ ہی حافظ ہے۔

گلبرگہ: نامور تاریخ داں معروف ادیب اور مقبول سماجی جہدکار ڈاکٹر محمد اکرم لاری آزاد نے کہا ہے کہ قومی یکجہتی دکنی شعراء کی دین ہے اور قومی یکجہتی کا کردار آج بھی گلبرگہ میں موجود ہیں۔ وہ انجمن ترقی اردو ہند شاخ گلبرگہ کے زیر اہتمام خواجہ بندہ نواز ایوان اردو میں "دکنی ادب اور ثقافت میں قومی یکجہتی کا پیغام ” کے زیر عنوان توسیعی لکچر دے رہے تھے۔ ڈاکٹر لاری آزاد نے شمالی ہند کے شعراء کا دکنی شعر اسے تقابل کرتے ہوئے کہا کہ شمالی ہند کے شعراء کے یہاں رومانیت اور عشق کے موضوعات بہت زیادہ پائے جاتے ہیں جب کہ دکنی شعراء کے یہاں عصری حسیت کے ساتھ ساتھ قومی یکجہتی کا پیغام نمایاں ہے۔

انھوں نے مزید ہے کہ صوفیا، سلاطین اور عام شعراء نے دکنی شاعری میں مذہبی عقائد، سلاطین کی قصیدہ خوانی کے ساتھ ساتھ مقامی باشندوں کو، جن مذہبی شخصیات سے عقیدت ہے ان کا ذکر بھی کیا ہے۔ بالخصوص کرشن، رام، سیتا، لکشمن سرسوتی کے کرداروں اور اخلاقی قدروں کو نہایت خوبصورت اور متاثر کن پیرائے میں پیش کیا ہے۔ اسی لیے دکنی زبان کو وہ قومی یکجہتی کی زبان تسلیم کرتے ہیں۔ ڈاکٹر لاری آزاد نے مزید کہا کہ صوفیاء اور سلاطین کی شاعری میں مقامی رنگ غالب ہے۔ اسلام نے انسانی یکجہتی کا جو پیغام دیا ہے، اس کو دکنی شعراء نے اپنی شاعری کے ذریعہ عام کیا گیا ہے۔

انھوں نے گلبرگہ کے ہندو مسلم یکجہتی کے ماحول کی بھر پور ستائش کرتے ہوئے اسے مثالی قرار دیا، اور کہا کہ دکنی شاعری میں قومی یکجہتی کے جو کردار ہیں 600 سال گزرنے کے باوجود وہ آج بھی زندہ نظر آرہے ہیں۔ ڈاکٹر لاری آزاد نے مزید کہا کہ دکنی سرمایہ ادب پر اہل دکن جتنا ناز کریں کم ہے، کیوں کہ دکنی ادب کو عالمگیر مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ انھوں نے اس بات پر سخت اظہار تاسف کیا کہ دکنی ادب کے شاہکار فن پاروں کے مخطوطات ہندوستان میں محفوظ اور دسیتاب نہیں ہیں بلکہ لندن، تاشقند، تہران اور دیگر یوروپی ممالک کے میوزیمس میں موجود ہیں اور فرنچ، جرمن، انگلش، دیوناگری کے علاوہ کئی زبانوں میں دکنی نثر و شاعری کے ترجمے شائع ہو چکے ہیں۔

مزید پڑھیں: اردو ادب میں مرثیہ اور نوحہ ایک اہم صنف

ڈاکٹر لاری آزاد نے اردو کو لشکری زبان قرار دینے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ یہ زبان صوفیاء اور تاجروں کی وجہ سے وجود میں آئی۔ انھوں نے اس سلسلہ میں کئی تاریخی حوالے اور دلائل بھی پیش کیے۔ ڈاکٹر لاری آزاد نےکامیاب ترین اجلاس کے انعقاد پر انجمن ترقی اردو گلبرگہ کے ارباب کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے گلبرگہ کے ادبی ماحول کی بھر پور ستائش کی۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ ماحول میں شمالی ہند میں اردو پروگراموں میں سامعین کی تعداد تشویشناک حد تک کم ہوتی جارہی ہے، لیکن گلبرگہ کے اس ادبی اجلاس میں سامعین کی کثیر تعداد میں شرکت ان کے لیے باعث حیرت و مسرت ہے۔ انھوں نے کہا کہ اردو دکن میں زندہ ہے، اس بات کا چہ چاوہ شمالی ہند کے اخبارات، ٹی وی چینلوں اور ادبی حلقوں میں ضرور کریں گے۔ ڈاکٹر لاری آزاد نے شمالی ہند میں اردو زبان و ادب کے مستقبل کو لے کر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اس سال اُردو میں پی ایچ ڈی کے لیے ایک بھی امیدوار نے رجسٹریشن نہیں کروایا۔ جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا یہ حال ہے تو شمالی ہند کی دیگر جامعات کا اللہ ہی حافظ ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.