بیدر: کہتے ہیں کہ اردو اور ہندی دو سگی بہنیں ہیں۔ ہر وہ ہندوستانی جس کی مادری زبان ہندی ہے وہ اردو سے محبت اور عقیدت ضرور رکھتا ہے۔ خصوصاً قلمکار، ادباء اور شعراء اردو اور ہندی کے پلیٹ فارم سے ہندوستانی تہذیب اور بھائی چارے کی فضا کو پروان چڑھانے میں اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ انہیں میں سے ایک نئی نسل کی نمائندہ اردو اور ہندی کی معروف شاعرہ شام بھاوی سنگھ جن کا تعلق اترپردیش کے پرتاب گڑھ سے ہے لیکن وہ ممبئی مہاراشٹر میں مقیم ہیں۔ انہوں نے اپنے ادبی سفر کے حوالے سے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے شروع سے ہی اردو زبان بہت پسند ہے اور میں اردو کے ان تمام ذمہ داران کا شکریہ ادا کرتی ہوں جو مشاعروں کے ذریعہ میری اردو دوستی اور اردو ہندی کی ملی جلی تہذیب کو منظر عام پر لانے کا موقع فراہم کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم کسی بھی زبان کے ہوں، معاشرے میں امن یکجہتی کا پیغام دینا ہماری اولین ذمہ داری ہے۔ انہوں نے ملک کے مسائل سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ ملک میں ان دنوں بے روزگاری اور مہنگائی سب سے زیادہ اہم مسائل ہیں۔ انہوں نے اپنے کلام کے ذریعہ خصوصاً کسانوں کے حوالے سے کہا کہ اناج اگانے والا کسان کسان خود بھوکا سو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس ملک کا کسان خوش حال ہے تو سمجھ لو کہ وہاں پر معاشرہ بھی بہتر ہے اور ترقی بھی ہو رہی ہے اور جہاں پر کسان پریشان ہیں تو ظاہر ہے وہاں معاشرے میں بھی بے چینی ہوگی۔
ادب میں خواتین کی کمی کے سوال پر انہوں نے کہا کہ خواتین کو مختلف کردار نبھانے پڑتے ہیں۔ بیٹی، بہن اور بیوی کا، یہ تمام فرائض نبھاتے نبھاتے عورت خود ایک عورت ہونے کا فرض بھول جاتی ہے۔ جہاں تک ادب میں خواتین قلمکاروں کی کمی کی بات ہے تو اس کی مختلف وجوہات ہیں لیکن خواتین کو چاہیے کہ وہ ہر چیلنج کا مقابلہ کریں اور اپنے آپ کو اور اپنی صلاحیتوں کو پیش کرنے کے لیے حوصلے اور ہمت کے ذریعہ آگے آئیں۔ پرتاب گڑھ اتر پردیش کی یہ شاعرہ ان دنوں ہندی منچ کے علاوہ اردو زبان و تہذیب کو فروغ دینے والے قومی یک جہتی، امن اور شانتی کے پیغام کو عام کرنے والے مشاعروں کی زینت بن رہی ہیں۔