بنگلور: گجرات فسادات پرمبنی بی بی سی کی فلمی دستاویز پر جہاں ایک طرف چہ می گوئیاں ہورہی ہیں تو وہیں دوسری جانب ریاست کرناٹک کے بنگلور کے مضافتی علاقہ تمکورور میں بجرنگ دل کی جانب سے منعقد شوریہ یاترا میں وشو ہندو پریشد کے رکن شرن پمپ ویل نے گجرات فسادات کے دوران ہوئے قتل عام کو ہندؤں کی شجاعت و بہادری سے تعبیر کیا ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’گجرات کا واقعہ یاد رکھیں، ایودھیا میں مندر کے لیے 59 کارسیوک ٹرین سے جارہے تھے، جنہیں زندہ جلا دیا گیا، اس پر گجرات نے کیا جواب دیا؟ اس معاملہ پر کوئی بھی اپنے گھروں میں نہیں بیٹھا، لوگ سڑکوں پر اتر آئے، 59 کارسیوک مارے گئے تھے، اس کے جواب میں 2000 سے زیادہ لوگ مارے گئے اور اب بھی ان کی گنتی نہیں ہے. یہ ہندوؤں کی طاقت ہے اور یہ ہندوؤں کی قابلیت ہے’’
وی ایچ پی لیڈر کے اس متنازعہ بیان کے رد عمل میں کانگریس کے رکن اسمبلی رضوان ارشد نے سوال کیا کہ اگر گجرات فسادات میں قتل عام بہادری ہے تو پھر اس پر بی بی سی کی جانب سے بنائی گئی ڈاکیومنٹری پر نریندر مودی حکومت کیو پابندی عائد کی ہے؟
واضح رہے کہ گجرات فسادات مبنی بی بی سی کی اس فلمی دستاویز کو بلاک کرنے کے بعد حکومت کی جانب سے اسے دیکھنے اور اسکریننگ پابندی عائد کی گئی ہے، بی بی سی کی جانب سے اس دستاویزی فلم کو دو قسطو ں میں نشر کیا گیا ہے ، دونوں قسطوں میں سے پہلی قسط نے لوگوں کی زیادہ توجہ مبذول کی ہے۔ حکومت کی جانب سے جب نے بی بی سی ڈاکومنٹری کے لنکس شیئر کرنے والی متعدد یوٹیوب ویڈیوز اور ٹویٹر پوسٹس کو بلاک کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں، لوگوں میں اسے لیکر دلچسپی پیدا ہوگئی،ملک کے متعدد یونیورسیٹیز کے طلبا اسے دیکھنے میں دلچسپی ظاہر کی۔ کانگریس اور سی پی ایم سمیت سیاسی جماعتوں نے بھی کئی مقامات پر عوامی اسکریننگ کا اہتمام کیا ہے۔
مزید پڑھیں:BBC Documentary Controversy بی بی سی کی دستاویزی فلم پر گجرات کے دانشوروں کا ردعمل