بنگلور: کرناٹک میں برسر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت نے دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) زمرہ کے 2B کے تحت کرناٹک میں مسلمانوں کو دیے گئے چار فیصد ریزرویشن کو ختم کر دیا ہے اور اسے ویراشائیو-لنگایتوں اور ووکلیگاس کے درمیان 2-2 فیصد تقسیم کردیا ہے۔ وزیر اعلی بسواراج بومائی کی طرف سے اس نئے کوٹہ کا اعلان بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کی جانب سے ریاست میں اسمبلی انتخابات منعقد ہونے سے ٹھیک ایک ماہ قبل کیا گیا۔ مسلمانوں کا چار فیصد او بی سی مسلم کوٹہ ووکلیگا اور لنگایت کے درمیان برابر تقسیم کیا گیا ہے۔ کوٹے کے اہل مسلمانوں کو اب معاشی طور پر کمزور طبقوں میں درجہ بندی کر دیا گیا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے اس اقدام سے ریاست میں مسلمانوں میں غصہ دیکھا پایا جارہا ہے۔ کانگریس پارٹی کی جانب سے میٹنگیں ہورہی ہیں اور علماء بھی ان میٹنگوں میں شرکت کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں بی جے پی حکومت کے فیصلے کے خلاف جنتا دل سیکولر پارٹی کی جانب سے ایک احتجاجی دھرنہ دیا گیا جس میں کئی وکالیگا لیڈران نے بھی شرکت کی اور بی جے پی کے اس اقدام کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔
یہ بھی پڑھیں : Muslim Reservation Removed in Karnataka مسلمانوں سے چھینا ہوا رزرویشن نہیں چاہئے، وکالیگا رہنما آر پرکاش
اس موقع پر ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے جے ڈی ایس پارٹی کی ترجمان نجمہ نظیر نے کہا کہ سنہ 1995 میں جنتا دل کے دور اقتدار میں ریاست کے مسلمانوں کے حالات کے متعلق 'چنپہ ریڈی کمیشن' نے ایک رپورٹ پیش کی تھی جس کے ریکمنڈیشن کے بعد اس وقت کے وزیر اعلی دیوے گوڑا نے مسلمانوں کو 4 فیصد ریزرویشن دیا تھا۔ اس سوال پر کہ مرکزی وزیر امت شاہ کا کہنا ہے کہ کرناٹک میں مسلمانوں کو دیا گیا بی ٹو ریزرویشن غیر آئینی ہے، نجمہ نظیر نے کہا کہ اگر یہ غیر آئینی تھا تو بی جے پی حکومت ابھی کیوں جاگی۔ نجمہ نظیر نے کہا کہ مسلمانوں کو دئے گئے 4 فیصد ریزرویشن کی بنیادی وجہ مذہب نہیں تھی بلکہ ان کی معاشی بدحالی تھی اور انہیں پسماندہ طبقے کے طور پر ریزرویشن دیا گیا تھا۔ نجمہ نظیر نے بتایا کہ جے ڈی ایس کے احتجاج میں کئی وکالیگا لیڈران نے بھی شرکت کی۔ ان کا کہنا ہے کہ وکالیگا کمیونٹی کو مسلمانوں سے چھینا ہوا رزرویشن نہیں چاہیے۔ نجمہ نظیر نے بتایا کہ جے ڈی ایس پارٹی کی جانب سے بی جے پی حکومت کے اقدام کے خلاف احتجاج جاری رہینگے اور قانونی چارہ جوئی بھی کی جائیگی۔