اس تعلق سے معروف وکیل ایڈووکیٹ محمد طاہر نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اس کیس کے سلسلے میں شروعات ہی میں ہائی کورٹ میں ایک پی آئی ایل دائر کی تھی۔
اس مانگ کے ساتھ کہ اس دھوکہ دہی معاملے میں فارینسیک آڈٹ کیا جائے جس کے نتیجے میں ہائی کورٹ نے پچھلی سنوائی میں اس تعلق سے سی بی آئی سے استفسار کیا تھا اور اس کے بعد روشن بیگ کی حراست عمل میں آئی۔
ایڈووکیٹ محمد طاہر کہتے ہیں کہ فارینسیک جانچ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کمپنی کے سارے اکاؤنٹس تفصیلی طور پر جانچ کئے جاتے ہیں کہ کب کس کو کتنی رقم کس ذریعے سے دی گئی ہے۔
محمد طاہر نے بتایا کہ فارینسیک جانچ میں ان سبھی افراد، ادارے و دیگر لوگوں کو حراست میں لیے جانے کے امکان ہیں جن کو بڑی رقم دی گئی ہو اور اس کے بعد حکومت کی جانب سے تقرر کی گئی۔
کامپیٹینٹ اتھارٹی ان اداروں و افراد سے مذکورہ رقم وصول کریگی جس کو بعد میں متاثرین کو دی جائیگی۔ ایڈووکیٹ طاہر نے بتایا کہ آئی ایم اے پونزی اسکیم معاملہ ہے جس میں متاثرین کو ان کے سرمایہ سے ایک بڑا حصہ ضرور واپس ملی گا۔
یاد رہے کہ بتاریخ 25 نومبر سے 24 دسمبر تک کامپیٹینٹ اتھارٹی کو بنگلورو میں آئی ایم اے کے متاثرین کلیم فارمز کو سبمٹ کرسکتے ہیں۔