کرناٹک کے شہر بنگلورو نارتھ ضلع کے علاقے بسولنگپا نگر میں واقع سرکاری اردو اسکول کی حالت انتہائی خستہ حال ہے۔
مسلم اکثریتی علاقہ میں 2009 میں قائم شدہ یہ اسکول مقامی شخص مرحوم غوث محی الدین کی جانب عارضی وقت کے لیے دی گئ قدیم عمارت میں شروع کیا گیا تھا اور عمارت کے حالت انتہائی خستہ حال ہوجانے کے بعد اس اسکول کو متعدد جگہوں پر منتقل کیا گیا۔
گزشتہ 5 برسوں سے اسکول کی یہ حالت ہے کہ اسکول میں زیر تعلیم بچوں کو کبھی پیڑ کے سائے میں تو کبھی گلی-سڑکوں پر پڑھائی کرنی پڑی۔ جب ڈی. ڈی.پی.آئی سے رابطہ کیا گیا تو سرکاری اہلکاروں نے اسکول کو بند کرنے کی بات کی۔
اس اردو اسکول کو جاری رکھنے کی نیت سے اردو ٹیچرس کونسل کے ریاستی چئیرمین فیض اللہ جنیدی نے چند مقامی حضرات کے تعاون سے 8 فٹ کے 2 چھوٹے کمروں کے ایک گھر کو کرائے پر لیا اور اب ان دنوں یہ اسکول اسی چھوٹی سی جگہ پر جاری ہے۔
کونسل کی اس کوشش سے یہ اردو اسکول بند ہونے سے تو بچ گیا لیکن یہ اس مسلے کا مستقل حل نہیں ہے۔گزشتہ برس اساتذہ کو محکمہ تعلیم کی جانب سے نوٹس دیا گیا تھا کہ اسکول کو بند کر دیا جائے جب کہ اس میں 35 بچے زیر تعلیم تھے۔
اسکول کی صدر معلم نعیم النسا نے ای. ٹی. وی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پہلی تا پانچویں جماعت میں بچوں کی تعداد 70 سے اب صرف 20 رہ گئی ہے۔
اس علاقہ میں دوسری کوئی سرکاری اردو اسکول نہیں ہے چونکہ یہ بچے غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کے والدین انھیں نجی اسکولوں میں پڑھانے کی استطاعت نہیں رکھتے لہذا ان دشوار حالات میں بھی یہاں پڑھائی کو جاری رکھا گیا ہے۔
نعیم النسا نے بتایا کہ انہوں نے محکمہ تعلیم کے علاوہ مقامی رکن اسمبلی کو متعدد بار خط لکھ کر اس جانب ان کی توجہ مبذول کرنے کی کوشش کی مگر ساری کوششیں کاغذات پر ہی رہ گئیں۔
کونسل کے ریاستی چئیرمین فیض اللہ بیگ جنیدی نے بتایا کہ اسکول کے شروعات ہوئے 10 سالوں بعد بھی اس کے لیے زمین مختص نہیں کی گئی۔ اس سلسلے میں اسکول کی جانب سے محکمہ تعلیم سے روابط کیے گئے اور مسلم سیاست دانوں سے بھی اسکول کے لیے زمین کی اپیل کی گئی لیکن کوئی نتیجہ حاصل نہ ہوا۔
جنیدی نے بتایا کہ انہوں مسلم سیاستدان آر روشن بیگ، سابق ریاستی وزیر برائے تعلیم تنویر سیٹھ، سابق مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور کے. رحمان خان و سابق ریاستی وزیر برائے اقلیتی امور ضمیر احمد خان سے بھی رابطہ کیا لیکن سب بے سود رہا۔
مقامی تاجر محمد نذیر نے ای. ٹی. وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ علاقہ شہر بنگلور سے خاصا دور ہے اور اور ایسے میں یہ اسکول اردو زبان کو بچائے ہوئے ہے اور اگر ذمہ داران کی جانب سے مثبت کوشش کی گئی تو یہ اسکول بچایا جاسکتا ہے۔
سماجی کارکن اکمل بیگ نے اس اسکول کے متعلق کہا کہ یہ اسکول میں زیر تعلیم بچے کو صحیح جگہ نہ ہونے کے سبب کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اگر کوئی مسلم رہنما اس جانب توجہ دے تو اس اردو اسکول کو بند ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔
اس سلسلے میں فیض اللہ بیگ جنیدی اور اساتذہ کا حکومت سے یہ مطالبہ ہے کہ وہ اس اردو اسکول کے لیے زمین مختص کرے تاکہ یہ غریب طلبا و طالبات تعلیم سے آراستہ ہوسکیں۔
اردو اسکولوں کے متعلق یہ دیکھا جارہا ہے کہ یہاں صحیح انفراسٹرکچر اور قابل اساتذہ نہ ہونے کی وجہ سے چند غریب والدین اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں داخل تو کروادیتے ہیں لیکن وہ ماہانہ فیس ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں جس سے بچے ڈراپ آؤٹ ہوجاتے ہیں اور اس طرح بچوں کی زندگی برباد ہوجاتی ہے۔