کرناٹک میں بی جے حکومت نے انٹی کنورژن بل Anti Conversion Bill کے ڈریفٹ کو کابینہ میں پاس کردیا ہے جس سے عوام میں اور خاص طور پر مسیحی کمیونیٹی میں غم و غصہ ہے۔
اینٹی کنورژن بل کے متعلق متعدد اہم سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت کسی بھی باشندے کے عقیدے کے عمل کو جرم قرار دینے کا کام کر رہی ہے جو کہ غیر دستوری ہے Protection of Right to Freedom of Religion ۔
اس بل کے متعلق ایڈووکیٹ مانوی کہتی ہیں کہ 'ایسے قوانین کے ذریعے حکومت عوام کو ان کے مذہب کے اعتبار سے نشانہ بنا رہی ہے۔ اچھوت پن جیسا بُرا رویہ لوگوں کو ہندو مذہب سے دوسرے مذاہب کی طرف دھکیل رہا ہے۔
اس سلسلے میں ایڈووکیٹ میتری نے کہا کہ 'دستور ہر کسی کو یہ حقوق دیتا ہے کہ وہ کسی بھی دین یا مذہب کو اختیار کرے اور اس پر عمل پیرا ہو اور اس سے حکومتوں کو کوئی پرابلم نہیں ہونی چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ جبراً مذہب تبدیلی کے نام پر ریاست بھر میں نفرت پھیلائی جارہی ہے اور اقلیتی طبقات کے لوگوں پر حملے کئے جارہے ہیں۔
اس کے علاوہ سماجی کارکن فردوس نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'بل کو قانونی شکل دیئے جانے سے پہلے ہی مسیحی کمیونٹی اور ان کی عبادت گاہوں پر حملے ہورہے ہیں اور جب اسے قانون بنادیا جاتا ہے تو مسیحیوں پر ظلم کا تصور بھی بھیاناک ہے۔
ان تمامی سماجی کارکنان نے ریاستی بی جے حکومت کو انتباہ دیا کہ اینٹی کنورژن بل کو نافذ کرنے کا ارادہ ترک کردے بصورت دیگر حکومت کے خلاف ریاست گیر مہم چلائی جائے گی۔