گزشتہ روز جھارکھنڈ کے سرائے کیلا کھرسواں میں تبریز انصاری کی ماب لنچنگ کا سانحہ پیش آیا، جس میں ان کی جان چلی گئی، لیکن ریاست جھارکھنڈ میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔
نیوز ویب سائٹ فیکٹ چیکر کے مطابق رواں برس جھارکھنڈ میں ہجومی تشدد کے کل 11 واقعات رونما ہوئے ہیں جس میں 6 افراد ہلاک اور 22 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں ہجومی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ صرف سنہ 2015 میں ہی ماب لنچنگ کے 121 واقعات جانور چوری کرنے یا گئو ذبیحہ کے نام پر رونما ہوئے، جب کہ سنہ 2012 سے 2014 تک ہجومی تشدد کے صرف چھ واقعات پیش آئے۔
سنہ 2009 سے لے کر 2019 تک ہونے والے ہجومی تشدد کے 59 فیصد واقعات میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ جس میں 28 واقعات جانور چوری کرنے اور اسے ذبح کرنے کے نام پر انجام دیے گئے ہیں۔
ان میں 66 فیصد واقعات بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں انجام دیے گئے ہیں اور صرف 16 فیصد واقعات کانگریس کے زیر اقتدار ریاستوں میں انجام دیے گئے ہیں۔
گزشتہ منگل کو ریاست جھارکھنڈ کے ضلع کھرسواں میں تبریز انصاری پر جانور چوری کرنے کے نام پر حملہ کیا گیا تھا۔ جسے ایک کھمبے سے باندھ کر کئی گھنٹوں تک مارا پیٹا گیا اور پھر اسے پولیس کے حوالہ کردیا گیا۔
اس واقعہ کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تھی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ گاؤں کے باشندے تبریز کو ' جئے شری رام اور جئے ہنومان' کے نعرے لگانے کے لیے مجبو کررہے ہیں۔
سنیچر کے روز تبریز کی موت سے اسپتال میں لانے سے ہوگئی تھی جس کے بعد سے ملک بھر میں اس حملے کی مذمت کی جارہی ہے۔
مقامی پولیس کے مطابق اس معاملے میں اب تک 11 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور دو پولیس افسران کو معطل کیا گیا ہے۔
مقتول تبریز کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ' خاطیوں کو سخت سے سخت سزا دی جائے اور اس معاملے میں غفلت برتنے والے ڈاکٹرز اور پولیس افسران کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔
اہلخانہ کا الزام ہے کہ'ان کے متعدد مرتبہ گزارش کرنے کے باوجود پولیس والوں نے تبریز کو وقت پر طبی امداد نہیں پہنچائی، جس کے سبب اسپتال میں داخل کرنے سے قبل ہی تبریز کی موت واقع ہوگئی۔
سنہ 2014 میں مودی کے اقتدار میں آنے کےبعد ماب لنچنگ کا پہلا شکار جو مسلمان بنا وہ آسام کے دیما پور کے فرید خان تھے۔
پیشے سے ٹیچر فرید خان کو ایک ناگا لڑکی کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں دیماپور کے پولیس اسٹیشن لاک اپ میں رکھا گیا تھا۔
5 مارچ 2015 کو تقریبا دس ہزار کی بھیڑ نے پولیس اسٹیشن کا گھیراو کیا اور فرید خان کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا، پولیس نے بجائے کمک بلانے اور لا اینڈ آرڈر برقرار رکھنے کے فرید خان کو ہجوم کے حوالے کر دیا۔
بھیڑ نے پہلے تو فرد خان کو مادرزاد ننگا کیا اور پھر اسے سڑکوں پر گھسیٹ گھسیٹ کر اور آخرمیں سڑک پر بنے ریلنگ سے باندھ کر اتنا تشدد کیا کہ ان کی جان چلی گئی۔
پارلیمانی انتخابات 2019 کے دوران بھی اس طرح کے کئی واقعات رونما ہوئے اور نتیجے کے دن 23 مئی کو بھی ماب لنچنگ کے واقعات ہوئے لیکن 23 مئی کو مودی حکومت کے واضح اکثریت کے ساتھ کامیاب ہونے کے باوجود اس طرح کے واقعات پر لگام لگانے میں غفلت برتی جارہی ہے۔
اکیس جون کو دارالحکومت دہلی کے روہینی سیکٹر 20 میں جئے شری رام کا نعرہ نہ لگانے پر ایک مسلم نوجوان کے ساتھ مارپیٹ کی گئی۔
متاثرہ مسلم نوجوان محمد مومن کو ایک کار نے ٹکر ماری جس کے سبب وہ زخمی ہوگئے۔ کار میں بیٹھے چند لوگوں نے انہیں ' جئے شری رام ' کا نعرہ لگانے کے لیے کہا، جب اس نے انکار کیا تو اسے گالیاں دیں اور اس کے ساتھ مار پیٹ کی، جس کے سبب انھیں کافی چوٹیں پہنچیں ۔
اور گزشتہ روز اس طرح کا ایک اور واقعہ ریاست آسام کے بارپیٹا قصبے میں رونما ہوا تھا۔
جہاں دائیں بازو سے متعلق چند لوگوں نے ایک آٹو رکشہ کو رکوا کر پہلے تو رکشے میں موجود مسلمانوں کی پٹائی کی، اس کے بعد انہیں 'جے شری رام، بھارت ماتا کی جے اور پاکستان مردہ آباد' کے نعرے لگانے کے لیے مجبور کیا۔
حملہ آوروں نے متاثرین کو گالیاں بھی دیں اور خود ہی ویڈیو شوٹ کر کے سوشل میڈیا پر وائرل کر دیا تھا۔
اس سے قبل 27 مئی کو سائبر سٹی گروگرام میں بھی ایک شخص کو ٹوپی پہننے کے نام پر پیٹا گیا تھا۔
یہ واقعہ گرو گرام کے صدر بازار میں نماز پڑھ کر لوٹ محمد برکت کے ساتھ پیش آیا تھا۔ محمد برکت عالم کے ساتھ کچھ نامعلوم افراد نے پہلے تو بحث و مباحثہ کیا اور پھر مار پیٹ شروع کردی۔ اطلاعات کے مطابق بائک پر سوار چار اور پیدل چل رہے دو لوگوں نے عالم سے ٹوپی ہٹانے کو کہا، لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ جس کے بعد ان کے ساتھ بدتمیزی کی گئی اور پھر ان لوگوں نے عالم کے ساتھ مار پیٹ شروع کردی۔ ساتھ ہی ان سے'جے شری رام' اور 'بھارت ماتا کی جے' کے نعرے لگانے کو کہا۔
ستائس مئی کو ریاست بہار کے بیگو سرائے میں شر پسند عناصر نے محمد قاسم نامی ایک مسلم نوجوان سے اسکا نام پوچھنے کے بعد کہا کہ تمہیں تو پاکستان جانا چاہیے اور پھر اس پر گولی چلادی۔ اس واقعہ کا بھی انتظامیہ نے بہت زیادہ نوٹس نہیں لیا۔
تئیس مئی کو عام انتخابات کے نتائج جاری کیے جا رہے تھے، اسی دوران ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع سیونی میں سخت گیر ہندو جماعت بجرنگ دل کے کارکنان نے گائے کے گوشت کے شک میں دو نوجوان اور ایک خاتون کو مبینہ طور سے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
اس کے بعد مبینہ 'گؤ رکشکوں' کا ایک سنسنی خیز ویڈیو سامنے آیا تھا، جس میں وہ ایک خاتون اور چند نوجوان کو بے رحمی سے پیٹتے ہوئے نظر آ رہے ہیں تھے۔
کہا جارہا تھا کہ ایک آٹو میں مبینہ طور سے گائے کا گوشت لے جانے کی خبر ملنے پر خود ساختہ گئو رکشکوں نے تین لوگوں کو پکڑ لیا اور انہیں پولیس کے حوالے کرنے کے بجائے انہیں لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے پیٹنا شروع کر دیا۔
بے رحمی کی انتہا تو تب ہوئی جب متاثرہ خاتون کو انھیں کے ساتھ کے سفر کر رہے نوجوانوں کے ذریعے چپل سے پٹوایا گیا تھا۔ اتنے پر بس نہیں کیا گیا بلکہ ان تینوں کو جے شری رام کے نعرے لگانے پر مجبورکیا گیا۔
ان تمام معاملات میں پولیس نے کیس درج تو کرلیا ہے، لیکن ملزمین کی گرفتاری میں کافی سست روی سے کام لیا جارہا ہے لیکن اس طرح کے واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔