جموں و کشمیر انتظامیہ نے کہا کہ نئے اراضی قوانین کے تحت 90 فیصد اراضی، جو کہ زرعی ہے، کو مکمل تحفظ فراہم کیا گیا ہے
انتظامیہ کے ترجمان روہت کنسل نے جموں میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ 'نئے اراضی قوانین کے مطابق زرعی زمین صرف مقامی کاشت کاروں کو ہی فروخت کی جا سکے گی'۔
پریس کانفرنس میں پرنسپل سکریٹری ریونیو پون کوتوال اور صوبائی کمشنر جموں سنجیو ورما بھی موجود تھے۔
انہوں نے کہا کہ زرعی اراضی صرف مقامی کاشت کاروں کو ہی فروخت کی جا سکے گی اور یہاں تک کہ جموں و کشمیر کے وہ باشندے، جو کاشت کار نہیں ہیں، وہ بھی زرعی زمین نہیں خرید سکیں گے۔
انہوں نے کہا: 'اراضی قوانین میں کاشت کار سے مراد وہ شخص ہے جو جموں و کشمیر کا مقامی باشند ہے اور یہاں کاشت کاری کرتا ہے۔ زرعی زمین باہر کے کسی بھی شہری کو فروخت نہیں کی جا سکے گی۔ وہ شخص جو جموں و کشمیر کا ہی رہنے والا ہے لیکن کاشت کار نہیں ہے وہ بھی زرعی زمین خرید نہیں سکے گا'۔
روہت کنسل کے مطابق نئے اراضی قوانین کے تحت 90 فیصد اراضی، جو کہ زرعی ہے، کو مکمل تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا: 'ان قوانین کی رو سے جموں و کشمیر کی 90 فیصد اراضی، جو زرعی زمین ہے، کو مکمل پروٹیکشن حاصل ہے۔ یعنی یہ زمین جموں و کشمیر کے لوگوں کے پاس ہی رہے گی'۔
روہت کنسل نے ایک سوال کے جواب میں زرعی زمین کو تحفظ فراہم کرنے کی بات دوہراتے ہوئے کہا: 'زرعی زمین کو مکمل پروٹیکشن دی گئی ہے۔ چونکہ یہاں 90 فیصد اراضی زرعی ہے اس لئے 90 فیصد اراضی اس یونین ٹریٹری سے باہر کے کسی بھی شخص کو نہیں فروخت کی جا سکے گی۔ زرعی زمین صرف اور صرف مقامی کاشت کار کو ہی فروخت کی جا سکے گی'۔
جب ایک نامہ نگار نے پوچھا کہ کیا غیر زرعی زمین خریدنے کے لئے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کی ضرورت پڑے گی تو پون کوتوال نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: 'غیر زرعی زمین خریدنے کے لئے کسی ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ صرف سرکاری نوکریوں کے حصول کے لئے ہے'۔
روہت کنسل نے دعویٰ کیا کہ نئے اراضی قوانین کے تحت جموں و کشمیر میں زمین کو ایسا ہی تحفظ فراہم کیا گیا ہے جیسا ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ جیسی ریاستوں کو فراہم کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا: 'یہ بات بحث میں آ رہی ہے کہ ملک کی کچھ ریاستوں کی طرح یہاں اراضی کو پروٹیکشن کیوں نہیں دی گئی۔ لیکن میں یہ بات واضح کرنا چاہوں گا کہ جو پروٹیکشن یہاں دی گئی ہے ایسی ہی پروٹکشن ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ میں فراہم کی گئی ہے'۔
گلگت بلتستان سےپاکستان غیرقانونی قبضہ فوراً ہٹائے: بھارت
حکومتی ترجمان روہت کنسل نے سابق ریاست کے اراضی قوانین کو عوام مخالف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قوانین دیہی زرعی معیشت کے مفاد میں تھے۔
انہوں نے کہا کہ جب یہ پرانے قوانین متعارف کئے گئے تھے شاید اس وقت مناسب تھے لیکن یہ صرف دیہی زرعی معیشت کے مفاد میں تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ قوانین بعد میں فرسودہ ہوئے تھے۔
مسٹر روہت نے مزید کہا کہ اس سسٹم کو صاف کر کے غیر ضروری مقدمہ بازی سے بچنے کے لئے نئے قوانین کو متعارف کرنے کی ضرورت تھی۔
انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ ایسی کوئی بھی توضیح سے مفاد خصوصی رکھنے والے عناصر کو سرگرم ہونے کا موقع ملتا ہے۔ اس پس منظر میں سابقہ اراضی قوانین کو منسوخ کر دیا گیا۔
حکومتی ترجمان نے روشنی ایکٹ سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ حکومت عدالتی احکامات پر عمل درآمد یقینی بنائے گی۔
ان کے بقول: 'روشنی ایکٹ کے حوالے سے ہائی کورٹ کے احکامات ہیں۔ حکومت ان احکامات کی عمل آوری کو یقینی بنائے گی اور اراضی کی واپسی بڑے مستفدین سے ہی شروع ہوگی'۔
واضح رہے کہ مرکزی وزارت داخلہ نے جموں و کشمیر کے اراضی قوانین میں بڑے پیمانے پر ترمیم کر کے ملک کے کسی بھی شہری کو اس خطے میں غیر زرعی زمین خریدنے کا اختیار دیا ہے۔
ترمیم شدہ قوانین کی رو سے حکومت کسی بھی فوجی افسر کی تحریری درخواست پر کسی بھی قطعہ اراضی کو 'دفاعی علاقہ' قرار دے کر اسے فوج کو دفاعی ضرورت کے لئے دے سکتی ہے۔
تاہم مرکز کے زیر انتظام لداخ میں، جو رقبے کے لحاظ سے جموں و کشمیر سے بڑا ہے، ترمیم شدہ اراضی قوانین نافذ نہیں ہوں گے۔ اس پر وہاں کے بی جے پی رہنماؤں نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔
گذشتہ برس پانچ اگست کو منسوخ کی گئی آئین ہند کی دفعہ 35 اے کی رو سے ملک کی کسی دوسری ریاست کے کسی بھی شہری کو کشمیر میں جائیداد خریدنے اور یہاں کا مستقل شہری بننے کا حق حاصل نہیں تھا۔
دفعہ 35 اے کی رو سے اس خطے میں زمین کی خرید و فروخت کے علاوہ سرکاری نوکریوں اور وظائف، ریاستی اسمبلی کے لئے ووٹ ڈالنے اور دوسری مراعات کا قانونی حق صرف اس کے مستقل باشندوں کو ہی حاصل تھا۔
نئے اراضی قوانین کی وجہ سے جموں و کشمیر کے لوگوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔