ای ٹی وی بہارت نے اس ضمن میں سیاسی و سماجی جماعتوں سے وابستہ رہنماؤں سے ان کا ردعمل جاننے کی کوشش کی۔ اپنی پارٹی کے نائب صدر غلام حسن میر نے انتظامیہ کے اس فیصلے کی مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ' انسانیت کے طور پر ان غریب روہنگیائی پناہ گزین مسلمانوں کو جموں میں رہنے کی اجازت دی جائے'۔
انہوں نے کہا کہ 'برما میں پرتشدد حالات پیدا ہونے کے ساتھ ہی روہنگیا مسلمان بھارت میں پناہ لینے آئے ہیں۔ یہ مصیبت زدہ لوگ ہیں اور مصیبت آنے پر یہ لوگ بھارت میں اپنی جان بچانے آئے ہیں۔' انہوں نے کہا کہ 'اگر روہنگیا مسلمانوں میں کوئی غیر قانونی کاموں میں ملوث پایا جاتے ہیں تو اس کے خلاف کاروائی کی جانی چاہیے نہ کہ ان سب پر جبر کیا جائے'۔
سماجی کارکن اشتیاق احمد کا کہنا تھا کہ' ہم بھی چاہتے ہیں کہ روہنگیا پناہ گزینوں کو واپس اپنے ملک بھیج دیا جائے تاہم جس طرح سے جموں کشمیر انتظامیہ نے 155 افراد کو ان کے اہل و عیال سے الگ کر کے جیل بیج دیا، یہ غلط فیصلہ ہے۔' انہوں نے مزید کہا کہ 'ہم چاہتے ہیں کہ حکومت نیپال و دیگر ممالک کے باشندگان کو بھی جموں کشمیر سے نکال کر اپنے ملک واپس بھیجے۔'
مزید پڑھیں: جموں میں روہنگیا پناہ گزینوں کی ’ویریفیکیشن‘ کا عمل جاری
حکومتی اعداد وشمار کے مطابق جموں کے مختلف حصوں میں مقیم برما کے تارکین وطن کی تعداد محض 5 ہزار 700 ہے۔ یہ تارکین وطن جموں میں گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے مقیم ہیں۔'