رام مادھو نے کہا کہ دفعہ 370 کے خاتمے پر جموں اور لداخ کی عوام خوش ہیں، لیکن وادی کشمیر میں ابھی چند مسائل ہیں۔ انہوں نے کہا:' خطہ جموں کے لوگ خوش ہیں، وہ اب ملک کے ساتھ پوری طرح ضم ہو گئے ہیں۔ تاہم کشمیر وادی میں چند مسائل ہیں اور ان مسائل کا خاص خیال رکھا جائے گا، اور انہیں انتہائی حساسیت کے ساتھ حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔
حیدر آباد میں ایک قومی اتحادی مہم کے دوران عوام سے خطاب کرتے ہوئے رام مادھو نے کہا کہ خطہ لداخ کے عوام خوشی منا رہے ہیں، کیونکہ ان کی دیرانہ مانگ پوری ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دفعہ 370 کے خاتمے کی افادیت کے بارے میں کشمیری عوام کو بہت جلد با خبر کیا جائے گا۔ کشمیری عوام کا ایک بڑا طبقہ اس فیصلے کی ستائش کر رہا ہے۔
رام مادھو نے کہا کہ 'گزشتہ دو ماہ کے دوران جموں و کشمیر میں کسی طرح کوئی بڑا حادثہ پیش نہیں آیا ہے۔ ہر ایک کشمیری ملک مخالف نہیں ہے اور نہ ہی علحیدگی پسند۔ وہ بھی میری اور آپ کی طرح ہیں۔ ہم نے دفعہ 370 کو ہٹایا، کیونکہ ہم جموں و کشمیر کی عوام کو باوقار زندگی گزارنے، ترقیاتی حقوق اور سیاسی حقوق فراہم کرنا چاہتے ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ 200 سے زائد سیاسی رہنماؤں کو احتیاطی طور حراست میں لیا گیا ہے، جنہیں 5 اسٹاز ہوٹلز رکھا گیا ہے اور وہاں ہر طرح کی سہولیات دستیاب رکھی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ دس روز قبل کشمیر کا دورہ کرنے والی چند بھارتی خواتین نے حقائق پر مبنی ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں وہاں تعینات بھارتی فوج پر کئی طرح کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ ان الزامات میں فوجیوں کی جانب سے 3 ہزار مقامی لوگوں کو گھروں سے اٹھانے اور کرفیو کی خلاف ورزی کی صورت میں مختلف خاندانوں کے افراد کو پوچھ گچھ کے لیے لے جانا شامل ہے، تاہم رام مادھو نے عوامی خطاب کے دوران دعویٰ کیا کہ جموں و کشمیر میں امن کو برقرار رکھنے کے لیے سیاسی رہنماؤں کو عارضی طور پر حراست میں لیا گیا ہے، جبکہ 200 کے قریب افراد جیلوں میں ہیں اور ریاست بھر میں امن ہے۔
واضح رہے کہ مرکزی حکومت نے 5 اگست جموں وکشمیر کو دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات ختم کر کے ریاست کو تقسیم کرکے دو مرکزی زیر انتظام والے علاقوں میں تقسیم کر دیا۔
مرکزی حکومت نے اس فیصلے سے چند گھنٹے قبل ہی جموں و کشمیر میں بندیشیں، انٹرنیٹ خدمات معطل اور تمام مواصلاتی رابطے بند کر دئے تھے۔ وادی کے علیحدگی پسند رہنماؤں کے علاوہ سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی اور سینکٹروں ہند نواز سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لے کر نظر بند کر دیا گیا ہے۔
گرچہ جموں اور لداخ میں موبائل فونز اور انٹر نیٹ خدمات بحال کیے گئے، تاہم وادی کشمیر میں ان خدمات پر بدستور پابندی ہے۔ وادی میں اگرچہ لینڈ لائن خدمات بھی معطل کی گئیں تھیں تاہم یہ خدمات گزشتہ ماہ مرحلہ وار طور پر بحال کی گئیں۔