جموں:جموں کی خصوصی عدالت میں آج جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سعید کے اغوا کیس کی سماعت ہوئی۔ اس کیس میں یاسین ملک ورچیول موڈ کے ذریعے عدالت میں پیش ہوئے۔Rubaiya Sayeed Kidnapping Case
سی بی آئی کے وکیل ایس کے بھٹ نے بتایا کہ آج کورٹ نے گواہوں کو سمن بھیجا تھا جس میں گواہ نمبر 12 اور 13 کو کورٹ میں پیش ہونے کی ہدایت دی گی تھی، لیکن گواہ نمبر 12 بیرون ریاست میں تھا جس کے وجہ سے وہ کورٹ میں پیش نہیں ہو پائے جبکہ گواہ نمبر 13 کورٹ میں حاضر ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ جموں بار ایسوسی ایشن میں ایک سینیئر وکیل کی موت کے بعد عدالت میں وکیلوں نے کام کاج نہیں کیا جس کے بعد گواہ نمبر 13 کا بیان ریکارڈ نہیں کیا گیا اور اب کیس کی اگلی سماعت 23 جنوری 2023 کو مقرر کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یاسین ملک تہاڑ جیل سے ورچول موڈ پر حاضر ہوئے۔ تہاڑ جیل نے ایک خط کورٹ میں جمع کیا، جس میں بتایا گیا کہ یاسین ملک کو ایک سال تک دہلی سے باہر نہیں لے جا سکتا ہے، جس پر کورٹ کے جج نے یاسین ملک کو ورچول موڈ پر حاضر رہنے اور گواہیوں سے جراء کرنے کی ہدایت دی۔
سی بی آئی کے وکیل نے مزید کہا کہ کورٹ نے بھارتی فضائی کے چار افسران کی ہلاکت اور روبیہ سعید اغوا کیس کی اگلی سماعت 23 جنوری کو رکھ دی ہے جس میں گواہوں سے بیان قلمبند کیے جائے گے۔
اس سے پہلے اس کیس میں روبیہ سعید 15 جون اپنے وکیل ایڈوکیٹ انل سیٹھی کے ساتھ جموں کی خصوصی سی بی آئی کورٹ میں حاضر ہوئی تھیں۔ روبیہ کو 1989 میں سرینگر کے بالائی علاقے سے جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے عسکریت پسندون کی جانب سے اغوا کیے جانے سے متعلق درج کیس میں بطور گواہ طلب کیا گیا تھا۔ سی بی آئی کی وکیل مونیکا کوہلی کے مطابق اغوا کیس میں روبیہ سعید نے تہاڑ جیل میں مقید لبریشن فرنٹ کے سربراہ یاسین ملک سمیت تمام اغوا کاروں کی شناخت کر لی ہے۔
مزید پڑھیں: Rubaiya Sayeed Kidnaping Case روبیہ سعید اغوا کیس کی اگلی سماعت 23 دسمبر کو ہوگی
بتادیں کہ جس وقت اغوا کا یہ واقعہ سامنے آیا تھا، اس وقت مفتی محمد سعید مرکز میں وزیر داخلہ تھے اور آزادی کے بعد یہ پہلا موقعہ تھا جب بھارت میں کسی مسلمان کو یہ عہدہ دیا گیا تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ شریک وی پی سنگھ کی مخلوط جنتا دل حکومت کیلئے روبیہ سعید کی بازیابی ایک نازک صورتحال تھی۔جموں و کشمیر میں اس وقت ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی قیادت میں نیشنل کانفرنس کی حکومت قائم تھی جو روبیہ سعید کی رہائی کے بدلے پانچ عسکریت پسندوں کو چھوڑنے کی مخالفت کررہی تھی۔روبیہ سعید ایک منی بس میں سرینگر کے میڈیکل کالج سے اپنی رہائش گاہ نوگام کی جانب جارہی تھی جب عسکریت پسندوں نے انہیں حیدر پورہ کے قریب بندوق کی نوک پر اغوا کیا۔ انہیں ایک ماروتی کار میں سوار کرکے سوپور پہنچادیا گیا تھا۔ روبیہ سعید اس وقت ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کررہی تھیں اور وزیر داخلہ کی بیٹی ہونے کے باوجود وہ مسافر بس میں سفر کررہی تھیں اور انہیں کوئی سکیورٹی نہیں دی گئی تھی۔
قابل ذکر ہے کہ یاسین ملک گزشتہ چار سال سے مختلف کیسوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے بند ہیں۔ ان کی تنظیم کو حکام نے 2017 میں غیر قانونی قرار دیا ہے۔ یاسین ملک کو دو ماہ قبل ایک ٹیرر فنڈنگ کیس میں دلی کی ایک ذیلی عدالت نے دو مرتبہ عمر قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ یہ سزائیں ان پر بیک وقت نافذ ہیں۔ یاسین ملک نے اس کیس میں اعتراف جرم کیا تھا اور خود ہی کیس کی پیروی کی تھی۔ حکام انکے خلاف دیگر دو کیسز میں بھی مقدمہ چلارہے ہیں جن میں 1989 میں اسوقت کے مرکزی وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سعید کا اغوا بھی شامل ہے۔ جولائی میں اس کیس میں روبیہ سعید جموں کی سی بی آئی عدالت میں پیش ہوئیں جب کہ یاسین ملک نے دلی سے آن لائن انکے ساتھ جرح کی۔Yasin Malik life Imprisonment In Tihar jail