جموں کشمیر کی سرمائی دارالحکومت جموں کے بترا ہسپتال میں آج صبح معروف اسلامی اسکالر مفتی فیض الوحید کی موت ہوئی جس کے بعد جموں کشمیرکے خطہ جموں میں صف ماتم چھا گیا اور سماجی و سیاسی جماعتوں کے لیڈران نے ان کی وفات پر رنج وغم کا اظہار کرتےہوئے لواحقین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔
سابقہ چیف منسٹر محبوبہ مفتی، وائس چانسلر غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی نے اپنے تعزیتی پیغام میں معروف اسلامی اسکالر مفتی فیض الوحید کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
جموں کے بھٹنڈی علاقے میں ان کی آخری رسومات مذہبی عقیدت و احترام کے ساتھ انجام دی گئی جہاں کووڈ پروٹوکول کو مدنظر رکھتے ہوئے 50سے زائد بار ان کا نماز جنازہ ادا کی گئی۔
مرحوم مفتی فیض الوحید کے قریبی دوست احمد قاری نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح سے مرحوم مفتی فیض الوحید کی سماج میں مقبولیت تھی پہلے ہی ظاہر کی جارہی تھی کہ نماز جنازہ کے لئے لوگوں کی بھاری تعداد ہوگی اور اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے انتظامیہ سے التجا کی کہ ایس او پیز کے تحت ان کی آخری رسومات ادا کرنے کی اجازت دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ مرحوم معروف اسلامی اسکالر مفتی فیض الوحید کے سینکڑوں کی تعداد میں شاگرد ہیں۔
واضح رہے کہ معروف اسلامی اسکالر مفتی فیض الوحید منگل کے روز جموں کے ایک نجی اسپتال میں انتقال کرگئے۔
مفتی فیض الوحید قرآن پاک کے گوجری زبان کے پہلے مترجم تھے۔ مرحوم ضلع راجوری کے دودھاسن بالا علاقے میں1966میں پیدا ہوئے ۔
مفتی فیض الوحید نے پہلی بار قر آن کا ترجمہ گوجری زبان میں کیا ہے۔
وہ کئی چھوٹی بڑی کتابوں کے بھی مصنف تھے۔اُنہیں فقہ اور شریعت اسلامی پر عبور تھا اوروہ جموں میں قائم مرکز معارف القر آن نامی ادارے کے سرپرست بھی تھے۔