جموں: جنوبی کشمیر کے کولگام ضلع میں ایک انوکھی کالونی ہے، جس کے وجود پر سوال کھڑے ہوگئے ہیں۔اخوان کالونی نامی اس بستی میں کم و بیش چالیس مکان موجود ہیں۔اس بستی میں سابق عسکریت پسندوں( جنہوں نے بعد میں عسکریت پسندی چھوڑ دی) کے کنبے رہتے ہیں جو فوج اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ ملکر 1990 کی دہائی کے وسط میں عسکریت پسند مخالف مہم میں شریک ہوگئے تھے۔
5 اگست 2019 کے بعد حکام نے سرکاری زمینوں سے ناجائز قبضے ہٹانے کی مہم شروع کی۔اخوان کالونی کے مکینوں کو بھی کہا گیا کہ وہ یہ زمین خالی کریں کیونکہ اس پر ناجائز قبضہ کیا گیا ہے۔لیکن یہ لوگ کہتے ہیں کہ کشمیری سماج انہیں تسلیم نہیں کرتا اور سرکاری بندوق برداروں کے نام سے ان کا اپنا ایک الگ سماج بن گیا ہے۔
روبی بانو نامی ایک اخوانی کی بیوہ کا کہنا ہے کہ ان کا شوہر مختار احمد ملک صرف اس وجہ سے مارا گیا، کیونکہ وہ اپنے گاؤں شورتھ گیا ہوا تھا۔ ان کے مطابق اگر وہ اخوان کالونی میں ہی ہوتا تو شاید قتل نہیں ہوتا۔
ملک کو عسکریت پسندوں نے اپنے گھر میں ہلاک کیا تھا۔ روبی کے شوہر کو فوج میں ملازمت مل گئی تھی۔ ان کے کنبے کو بھی فوجی مدد مل رہی ہے، لیکن وہ کہتی ہیں کہ سول انتظامیہ انہیں مشکلات میں ڈال رہی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ انہیں اس زمین پر مالکانہ حقوق ملنے چاہئیں تاکہ ان کے بچوں کو مستقبل میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔ ان کے مطابق انہوں نے اخوان کالونی میں بنائے گئے مکانوں پر اپنی زندگی کی ساری جمع پونجی خرچ کی ہے۔
انہوں نے اس سلسلے میں کشمیر کے صوبائی کمشنر کو درخواست دی ہے، لیکن اس پر ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔روبی کے بیٹے کو حکام نے ان کے والد کی ہلاکت کے عوض محکمہ تعلیم میں ملازمت دی ہے ۔ مقامی قانون کے مطابق عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کے کنبوں کو سرکاری نوکری یا نقد امداد دی جاتی ہے۔
مزید پڑھیں:
وہ کہتی ہیں کہ کسی اسلامی قانون کے مطابق ان کے شوہر کی ہلاکت کے بعد انہیں جائیدادوں سے محروم کیا جاتا ہے۔اخوان کالونی کے لوگ خود کو غیر محفوظ تصورت کرتے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں اس کالونی سے نکالا نہ جائے اور ان کے مکانوں کو منہدم نہ کیا جائے۔