صوبہ جموں میں رہائش پزیر سابق آئی اے ایس افسر خالد حسین نے کہا کہ روشنی ایکٹ کے تحت لی گئی زمین کو واپس لینا سرکار کا غلط فیصلہ ہوگا، کیونکہ چالیس ہزار سے زائد مکان روشنی ایکٹ کے تحت تعمیر کئے گئے ہیں جس کو سرکار نے تعمیر کرنے کی باضابطہ اجازت دی تھی۔
انہوں نے کہا 'روشنی ایکٹ کے تحت اگر کسی کے پاس زمین کے مالکانہ حقوق نہیں ہیں تو ان کو مالکانہ حقوق دیے جائیں تاکہ وہ ٹیکس ادا کر پائے'۔
بھٹنڈی علاقہ جموں سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن سہیل کاظمی کا کہنا ہے کہ رہائشی آبادی کو ٹارگٹ کرنا غلط ہے، سرکار کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو آباد کرے نہ کہ برباد۔
جموں و کشمیر کے محکمہ قانون، انصاف اور پارلیمانی امور کی جانب سے لیفٹیننٹ گورنر کی منظوری کے ساتھ جاری کردہ ایک حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے یہ ضروری سمجھا ہے کہ روشنی ایکٹ سے متعلق ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی پر لئے گئے فیصلہ پر مناسب ہدایات جاری کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیے
'نئے قوانین لوگوں کے وجود کے خلاف ہیں'
حکم نامے کے مطابق محکمہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ مذکورہ ایکٹ کی عمل آوری میں کی جانے والے اراضی کی تمام منتقلی اور بیع ناموں کو ختم کردیا جائے گا جبکہ پرنسپل سیکریٹری محکمہ مال روشنی ایکٹ 2001 کے تحت حاصل کردہ سرکاری اراضی کے بڑے حصوں کو بازیاب کرانے کے منصوبے پر میعاد میں عمل کیا جائے گا۔