ڈھول تاشے، یہ موسیقی کے وہ آلات ہیں جس کا استعمال دورِ قدیم سے لوگ مختلف موقعے پر کرتے آ رہے ہیں۔
خاص طور سے مختلف تقریبات اور محفلوں کا سماں باندھنے میں اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ روایت آج بھی برقرار ہے لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ ڈھول اور تاشے بنانے والے افراد کی زندگی کیسے گزر رہی ہے۔
ای ٹی وی بھارت نے جب ان کی زندگی کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تو کئی حیرت انگیز باتوں کا انکشاف ہوا۔
ڈھول بنانے والوں کی زندگی کسمپرسی کا شکار ہے اور دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے کے لیے بھی انہیں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
ڈھول بجاکر لوگوں کی زندگیوں میں خوشیاں بکھیرنے والے ان افراد کی زندگی کئی مسائل سے دو چار ہے۔
آج حالات ایسے ہیں کہ کاریگر ڈھول بنانے کے لیے ایک فٹ پاتھ سے دوسرے فٹ پاتھ کا رخ کرتے رہتے ہیں چونکہ انہیں اس با ت کا ڈر ہوتا ہے کہ کہیں پولیس انہیں وہاں سے ہٹا نہ دیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ غریب کاریگر کہاں جائیں؟
مرکزی و ریاستی سرکار نے کاریگروں کے لیے کئی فلاحی اسکیمز کا اعلان کیا ہے لیکن زمینی سطح پر یہ اسکیمز ان تک پہنچ نہیں پا رہی ہے۔
جموں کے پریم نگر علاقے میں بیرون ریاست سے آئے ہوئے ڈھول بنانے والے کاریگر فٹ پاتھ پر بیٹھ کر ڈھول بناتے ہیں اور وہیں پر رات میں سو جاتے ہیں۔
کاریگروں کا کہنا ہے کہ 'وہ چالیس برسوں سے ڈھول بنانے کا کام کر رہے ہیں۔'
ناظر حسین نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ڈھول بنانے سے ہم دو وقت کی روٹی حاصل کرتے ہیں اور کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے ہیں لیکن سرکار کی طرف سے کسی بھی قسم کی مدد نہیں ملتی ہے جبکہ وزیر بھی ہمارے پاس آتے ہیں اور یہ کہہ کر چلے جاتے ہیں کہ مکان بنا دیں گے مگر آج تک ہمیں کچھ نہیں ملا۔ اس کے برعکس پولیس اہلکار گندگی پھیلانے کی بات کہہ کر ہمیں ہٹا دیتے ہیں۔'
دیگر ایک کاریگر اجازت علی کا کہنا تھا کہ 'ڈھول بنانے کا کام ہمارا خاندانی پیشہ ہے جو ہنوز ہم کر رہے ہیں اور یہ کام اب ہمارے بچے بھی کریں گے۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'جموں و کشمیر میں گزشتہ دو ماہ سے حالات ناخوشگوار ہونے کی وجہ سے ان کے کام پر برا اثر پڑا ہے۔'