سابق آئی اے ایس افسر اور جموں و کشمیر پیپلز موومنٹ کے سربراہ ڈاکٹر شاہ فیصل بھی پی ایس اے کی زد میں آ گئے ہیں۔
واضح رہے کہ اس سے قبل سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ سمیت متعدد سیاسی رہنماؤں پر بھی پی ایس اے لگایا جا چکا ہے۔
شاہ فیصل جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے آٹھویں سیاسی رہنما ہیں جن پر پی ایس اے کا اطلاق کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر شاہ فیصل کو پانچ اگست 2019 کو حراست میں لیا گیا تھا اور اب وہ فی الحال ایم ایل اے ہوسٹل میں ہی نظر بند رہیں گے۔
قبل ازیں انتظامیہ نے سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی، نیشنل کانفرنس کے جنرل سکریٹری علی محمد ساگر، پی ڈی پی رہنما سرتاج مدنی، سابق وزیر نعیم اختر پر پی ایس اے عائد کیا گیا اور انہیں سرینگر کے گپکار روڑ پر واقع ایم فائیو ہٹ میں نظر بند رکھا جائے گا۔
اس کے علاوہ نیشنل کانفرنس کے صدر و رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ پر پی ایس اے کا اطلاق گزشتہ برس ستمبر میں کیا گیا تھا اور اس کی مدت ختم ہونے کے بعد اس میں مزید تین ماہ کی توسیع کی گئی تھی۔ تاہم وہ اپنی رہائش گاہ (جسے سب جیل میں تبدیل کیا گیا ہے) میں نظربند ہیں۔
واضح رہے کہ پی ایس اے (جسے نیشنل کانفرنس کے بانی شیخ محمد عبداللہ نے اسمگلروں کے لیے بنایا تھا) کو انسانی حقوق کے عالمی نگراں ادارے 'ایمنسٹی انٹرنیشنل' نے غیر قانونی قانون قرار دیا ہے۔
اس قانون کے تحت عدالتی پیشی کے بغیر کسی بھی شخص کو کم از کم چھ ماہ تک قید کیا جاسکتا ہے۔