انکا کہنا تھا جموں، کشمیر اور لداخ کی عوام کے مابین دوریاں اور اعتماد میں کمی پیدا کی جا رہی ہیں جسے دور کرنے کے لئے ’’آپسی یکجہتی اور بین علاقائی مذاکرات بے حد ضروری ہیں۔‘‘
انہوں نے ریاست کے سبھی خطوں میں صدیوں سے چلے آرہے ہندو، مسلم، سکھ، بودھ، عیسائی اتحاد اور مذہبی رواداری کو ریاست کے حقیقی حسن سے تعبیر کیا۔
انہوں نے سیاست دانوں اور لیڈروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جموں، کشمیر اور لداخ کی عوام کے مابین جو ’’دوریاں اور تلخیاں‘‘ ہیں انہیں سیاسی بنیادوں پر حل نہیں کیا گیا، ’’سبھی خطوں کے لوگوں کے جذبات اور خواہشات کی قدر کرتے ہوئے انکے مسائل کا حل ڈھونڈ کر دوریاں کم کرنا ناگزیر ہے۔‘‘
دریں اثناء ایم وائی تاریگامی نے ایک سوال کے جواب میں ریاستی گورنر ستیہ پال پر شدید تنقید کی اور انکے بیان کو ’’غیر ذمہ دارانہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’عسکریت پسند غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔‘‘
تاریگامی کے مطابق ’’غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث کسی بھی فرد یا جماعت کو کسی شخص کے خلاف کارروائی کرنے کا مشورہ دینا افسوسناک اور غیر ذمہ دارانہ فعل ہے۔‘‘
تاریگامی کا کہنا تھا کہ ’’اگر کسی فرد کے متعلق بدعنوانی، رشوت ستانی یا کسی اور قسم کی شکایات ہیں تو انکے خلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہئے، نہ کہ عسکریت پسندوں کو انکے خلاف کارروائی کرنے کی چھوٹ دینی چاہئے۔‘‘
قابل ذکر ہے کہ ریاستی گورنر ستیہ پال ملک نے عسکریت پسندوں کو بدعنوان سیاست دانوں کو مارنے کا مشورہ دیا تھا جس کے بعد انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔