کشمیر کے بعد اب جموں میں کوروناوائرس کے کیسز میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے خاص کر جموں کشمیر کی سرمائی دارالحکومت جموں میں جہاں پچھلے ایک ہفتہ میں تین ہزار سے زائد لوگوں کو کوروناوائرس کی مرض میں مبتلا پایا گیا ہے۔ تاہم جموں میں انتظامیہ کی طرف سے جموں میڈیکل کالج میں ناقص انتظامات پر انتظامیہ کو عوام و سیاسی رہنماؤں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
جموں میڈیکل کالج جموں صوبہ کا سب سے بڑا ہسپتال ہے، جہاں رام بن، کشتواڑ، ڈوڈہ، راجوری، پونچھ، اور دیگر اضلاع سے ہر روز ہزاروں کی تعداد میں مریض آتے ہیں۔
بی جے پی کے جنرل سیکرٹری و سابق ایم ایل سی وبود گھپتا نے جموں میڈیکل کالج کے احاطے میں ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ 'اس ہسپتال میں داخل ہوتے ہی معلوم پڑتا ہے کہ اس ہسپتال کی حالت کیا ہیں! میں یہاں اپنی ماں کا چیک اپ کرنے کے لیے آیا تھا تاہم ان کےلئے یہاں بیڈ نہیں ملا جبکہ یہی حال دیگر مریضوں کے ساتھ ہے۔'
پیپلز ڈیموکرٹیک پارٹی کے سابق ایم ایل سی فردوس احمد ٹاک کا کہنا تھا کہ 'صرف جموں میڈیکل کالج کی ہی بات نہیں بلکہ جتنے بھی طبی ادارے ہے وہاں ایسا ہی حال ہیں، جبکہ حکومت 8 ماہ سے تیاریاں کرنے کے دعویٰ کرتی آرہی ہیں جبکہ زمینی سطح پر محکمہ صحت کی ناقص کارکردگی عیاں ہے۔'
ہسپتال میں موجود تیمار داروں کا کہنا تھا کہ جموں میڈیکل کالج ہسپتال مریضوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑا جاتا ہے۔ یہاں کسی بھی طرح کی سہولیات دستیاب موجود نہیں ہے۔'
اس ضمن میں ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ نے جموں صوبہ کے سب سے بڑے ہسپتال جموں میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر نصیب چاند ڈگرا سے بات کی تو انہوں نے کہا ہسپتال انتظامیہ کی طرف سے کسی طرح کی کوتاہی نہیں برتی جارہی ہے، بلکہ یہ لوگوں کے دلوں میں ایک غلط فہمی ہے کہ یہاں انتظامات نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا جموں صوبہ سے ہزاروں کی تعداد میں یہاں ہر روز مریض آتے ہیں، جب کوروناوائرس کا قہر شروع ہوا تھا تب اس ہسپتال میں محض 33 بیڈ تھے جس کی تعداد اس وقت 200 ہیں اور ہر جگہ پر آکسیجن سیلندرز کی دستیابی کو یقینی بنایا جارہا ہے۔