اننت ناگ: سال 2023 نئے اقسام کے غیر مقامی میوہ جات کے فروغ کے لئے سود مند رہا۔ وادی کشمیر کے آب وہوا کو سیب، ناشپاتی، آڈو، خوبانی کے علاوہ کئی طرح کے تازہ پھلوں کی پیداوار کے لیے موزوں مانا جاتا ہے۔ موسم اور آب و ہوا کے اعتبار سے گرم علاقوں کے پھل دار پیڑ پودے یہاں کے ماحول میں نشونما نہیں کر سکتے۔ وہیں سائنسی اعتبار سے بھی پھلوں کی نشو نما موزوں موسم پر منحصر ہے۔ سال 2023 جہاں سیب کے کاشتکاروں کے لئے سود مند رہا، وہیں اس برس وادی کشمیر میں کئی ایسے غیر مقامی پھل منظر عام پر آگئے جس کا یہاں کی باغبانی میں تصور بھی نہیں تھا۔ اُن نئے میوہ جات میں خاص کر کیوی، پرسمن یا املوک جسے جاپانی پھل سے بھی جانا جاتا ہے۔ اگرچہ مذکورہ میوہ جات کے درختوں کی موجودگی یہاں کئی دہائیوں سے ثابت ہو رہی ہے، تاہم مارکیٹنگ کی کمی اور محکمہ باغبانی کی عدم توجہی کے سبب یہ میوہ جات اوجھل تھے۔
غور طلب ہو کہ سال 2023 کا کیلنڈر کسانوں کے لئے کسی حد تک منافع بخش رہا اور اس برس نہ صرف سیب کی قیمتوں میں اچھال دیکھنے کو ملا بلکہ جاپانی پھل، املوک، کیوی جیسے غیر مقامی پھل فروٹ مارکیٹ کی زینت بن گئے۔ جہاں کاشتکاروں کے نئے پھل مناسب داموں میں فروخت ہوئے۔ جس سے کسانوں میں ان کی کاشتکاری کے تئیں دلچسپی بڑھ گئی ہے۔ اگرچہ گزشتہ کئی برسوں سے محکمہ ہارٹیکلچر کو تقویت دینے کے لئے سرکاری سطح پر کوششیں کی جا رہی ہیں، تاہم یہ مانا جاتا ہے کہ کسان از خود تجرباتی طور پر نئے اقسام کے میوہ جات کی کاشتکاری کرکے اپنے ذرائع آمدن کو وسعت دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جس سے نہ صرف روزگار کے نئے مواقع فراہم ہو رہے ہیں بلکہ شعبہ باغبانی میں ایک نیا انقلاب دیکھنے کو مل رہا ہے۔
دراصل کیوی زیادہ تر بیرونی ممالک جیسے نیوزی لینڈ اور ہائیلینڈ میں پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھارتی ریاست ہماچل پردیش میں اس کی کھیتی کی جاتی ہے۔ وہیں اب کشمیر میں اس کی کاشتکاری رائج ہونے لگی ہے۔ جس میں سب سے زیادہ شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ میں اس کی کاشت کی جاتی ہے۔ اسی طرح پرسمون جسے املوک اور جاپانی پھل بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی کاشتکاری شمال مشرقی ہند، شمالی انڈونیشیا، جبکہ اس کی سب سے زیادہ کاشتکاری چین، جاپان اور شمالی کوریا میں کی جاتی ہے۔ اب آہستہ آہستہ کشمیر میں بھی اس کی کاشتکاری کا رجحان بڑھ رہا ہے اور یہ پھل جنوبی کشمیر کے ضلع کولگام اور اننت ناگ میں منظر عام پر آگیا ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے میوہ پودوں کی نرسری کے مالک رئیس جاں نثار نے کہا کہ دراصل وادی کشمیر میں اس طرح کے پھل نئے نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے میوں کے درخت یہاں صدیوں سے موجود ہیں، تاہم ان کے تئیں تجربہ اور سرکار کی عدم توجہی کے سبب یہ رائج نہیں ہو رہے تھے۔ رئیس نے مزید کہا کہ انہوں نے نیمبو، رسبری و دیگر کئی پھلوں کا بھی یہاں پر کامیاب تجربہ کیا ہے۔ تاہم اس پر محکمہ ہارٹیکلچر کو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
وہیں محققین کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ کے سبب نئے پھل کے پیڑ پودے یہاں کے ماحول کو تسلیم کر رہے ہیں اور صحیح معنوں میں ان کی معقول نشو نما ہو رہی ہے۔ لہذا زرعی یونیورسٹی اور متعلقہ محکمہ جات کو اس کے تئیں غورو فکر کرنا چاہئے۔ جس سے یہاں کے باغبانی یا زراعت کے شعبہ کو مزید تقویت ملے گی۔ محکمہ زراعت کے لئے بھی سال 2023 سود مند رہا۔ جہاں مشک بدجی چاول کی قیمتیں 25 ہزار فی کونٹل تک پہنچ گئیں۔ وہیں ضلع کولگام میں نایاب چاول مشک بدجی کو ایک مقامی سائنسدان نے بغیر مٹی چھت پر اگانے کا کامیاب تجربہ کرکے ثابت کر دیا کہ بغیر اراضی کے بھی لوگ کھیتی کرکے اپنا روزگار کر سکتے ہیں۔ ایسے میں یہ نیا تجربہ ان لوگوں کے لئے کسی معجزے سے کم نہیں ہے جن کے پاس کھیتی کے لئے اراضی دستیاب نہیں ہے۔