سری نگر: جموں و کشمیر کے راجوری ضلع میں 11 بچوں سمیت 14 افراد کی پراسرار موت کے بعد ریاستی حکومت نے کہا کہ وہ متوفی افراد کے نمونوں کی جانچ کر رہی ہے۔ اس دوران متوفی لوگوں کے نمونوں میں "مخصوص نیوروٹوکسنز" پائے گئے جس کے بارے میں مزید مزید جانچ جاری ہے۔
جموں و کشمیر حکومت کے چیف سکریٹری اتل دلو نے کہا کہ مختلف اداروں کی طرف سے ملی رپورٹس اب ہمارے پاس موجود ہیں اور جلد ہی کچھ اور رپورٹس موصول ہونے والی ہیں۔ دولو نے مزید کہا کہ "یہ رپورٹس جانچ کو مکمل کرنے اور ان اموات کی ممکنہ وجوہات تک پہنچنے کے لیے کافی ہونی چاہئیں۔"
پی جی آئی ایم ای آر (چندی گڑھ)، این آئی وی، سی ایس آئی آر اور این سی ڈی سی کے ماہرین نے چیف سکریٹری کے ساتھ متاثرہ افراد کے متعدد نمونوں کے نتائج شیئر کیے۔ پریمیئر انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین نے کہا کہ وسیع پیمانے پر مائیکروبائیولوجیکل اسٹڈیز کرنے کے بعد ان اموات کے پیچھے کوئی وائرل، بیکٹیریل یا مائکروبیل انفیکشن جیسی کوئی وجہ نہیں پائی گئی۔
" جانچ میں یہ پایا گیا کہ اس کی کوئی مقامی وجہ ہے اور ممکنہ طور پر ان کا کسی وبائی مرض سے تعلق ہے۔ مرنے والے افراد کے نمونوں میں کچھ نیوروٹوکسن پائے گئے جن کے بارے میں مزید جاننے کے لیے تفتیش کی جا رہی ہے۔
ان کیسز اور اموات کی پہلی لہر سات دسمبر 2024 کو رپورٹ ہوئی جب 38 افراد متاثر ہوئے۔ اس کے بعد سے ضلع راجوری کے گاؤں بڈھال میں تین مختلف واقعات میں 38 افراد میں سے 12 افراد کی موت ہوگئی جس کی وجوہات کا پتہ نہیں چل سکا۔ منگل کو مزید دو افراد کی موت ہوگئی۔
اب تک راجوری ضلع کے بڈھال گاؤں میں 11 بچوں اور تین بالغوں سمیت کل 14 افراد کی موت ہو چکی ہے جس سے لوگوں میں خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔
چیف سیکرٹری نے پولیس اور محکمہ صحت کے افسران سے کہا کہ وہ مختلف معروف اداروں سے موصول ہونے والی رپورٹس کا جائزہ لیں تاکہ ان اموات کی اصل وجہ کا پتہ لگائی جا سکے اور اس جانچ کو منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے۔
انہوں نے اس مسئلے پر سیکرٹری ہیلتھ اینڈ میڈیکل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ، اے ڈی جی پی، جموں کے ساتھ میٹنگ کی۔ اس میٹنگ میں ڈویژنل کمشنر، جموں؛ ڈی آئی جی، راجوری-پونچھ رینج؛ ڈی سی، راجوری؛ ایس پی، راجوری؛ پرنسپل، جی ایم سی، جموں؛ پرنسپل، جی ایم سی، راجوری؛ ڈائریکٹر، ہیلتھ سروسز جموں، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی (NIV)، نیشنل سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول (NCDC) اور DRDO کے ماہرین نے شرکت کی۔
حکومت نے اپنے بیان میں کہا کہ انہوں نے متعدد اقدامات اٹھائے ہیں جن میں ریپڈ ریسپانس ٹیموں کی جلد تعیناتی، انسانوں اور جانوروں کے نمونوں کی جانچ، پانی کی جانچ وغیرہ کے علاوہ ان اموات کے پیچھے اصل وجوہات کے بارے میں جاننے کے لیے ملک کے نامور صحت کے اداروں کی مدد لینا شامل ہے۔