جموں و کشمیر کا اصل چیف سیکرٹری کون ہیں؟ اس پر تعطل جاری ہے۔ بی وی آر سبرامنیم آج سرینگر پہنچے جہاں ان کی گاڑی پر 'چیف سیکرٹری کا جھنڈا' ہنوز چسپاں ہے جبکہ ان کا نیم پلیٹ اور عہدہ ان کے دفتر میں اب بھی 'چیف سیکرٹری' ہی بنا ہوا ہے۔
واضح رہے کہ جموں و کشمیر میں چیف سیکرٹری کا عہدہ آجکل موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ اصل چیف سیکرٹری کون ہے، اس بارے میں لیفٹننٹ گورنر انتظامیہ بھی وثوق سے کہہ نہیں سکتا۔ انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروس کے دو اعلیٰ ترین افسران جموں اور سرینگر میں براجمان ہیں اور دونوں اپنے آپ کو چیف سیکرٹری تصور کررہے ہیں۔
یہ عجیب صورتحال 28 مئی کو اسوقت پیدا ہوئی جب مرکزی حکومت نے ایک حکمنامے کے ذریعے بی وی آر سبھرامنیم کو جموں و کشمیر سے بحیثیت چیف سیکرٹری تبدیل کرنے کا حکمنامہ صادر کیا۔ بظاہر سبھرامنیم کو اس سے بہتر پوسٹ دی گئی ہے۔ وہ فی الحال وزارت فائنانس میں آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی ہونگے اور موجودہ فائنانس سیکرٹری کی سبکدوشی کے فورآ بعد انکی جگہ لیں گے۔
لیکن کہانی میں دلچسپ موڑ اسوقت آگیا جب انکی جگہ جموں و کشمیر میں عرصہ دراز سے تعینات آئی اے ایس افسر ارون کمار مہتا کو چیف سیکرٹری بنانے کا فرمان جاری کیا گیا۔ اصولی طور سبھرامنیم کو نیو سیکرٹریٹ جاکر اپنے جانشین کو عہدے کا چارج دینا چاہئے تھا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ حالانکہ انتظامیہ نے افسران کو ایک علیحدہ حکمنامے میں ہدایت جاری کی کہ کوئی بھی فائل دستخط کیلئے سبھرامنیم کو نہ بھیجی جائے لیکن اسکے باوجود وہ اپنا عہدہ چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
سبھرامنیم جموں میں اپنی سرکاری کوٹھی میں بیٹھے تھے اور انکی کار سے چیف سیکرٹری کا جھنڈا ہٹایا نہیں گیا ہے۔ سرینگر سیکرٹریٹ میں ارون کمار مہتا، فائنانشل کمشنر کے کمرے میں بیٹھے ہیں اور انہوں نے چیف سیکرٹری کے دفتر میں داخل ہونے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
کچھ جانکاروں کا کہنا ہے کہ سبھرامنیم جیوتش میں یقین رکھتے ہیں اور اسی بنیاد پر ایک مقررہ وقت تک چیف سیکرٹری کی کرسی کو چھوڑنے والے نہیں ہیں۔ جوتش کی ہدایات کے مطابق ہی وہ دہلی کیلئے بھی رخت سفر باندھیں گے۔
سبھرامنیم اپنے تین سالہ دور میں ایک ایسی چھاپ ڈال چکے ہیں کہ انکا تذکرہ کئے بغیر کشمیر کی تاریخ یا بیوروکریسی کا تذکرہ کرنا ناممکن ہوگا۔ کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے اور ریاست کو دو یونین ٹریٹریز میں تقسیم کرنے کے منصوبے کو عملہ جامہ پہنانے میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جن مین اسٹریم لیڈروں کو ریاست تقسیم ہونے کے وقت جیلوں میں بند کیا گیا تھا وہ انکے تبادلے اور اسکے نتیجے میں پیدا ہوئی عارضی کنٹروورسی پر خوشی کا اظہار کرنے لگے۔
سبھرامنیم نے ان لیڈروں کے بارے میں کہا تھا کہ انکی گرفتاری پر کشمیر میں کسی نے ایک آنسو بھی نہیں بہایا۔ شاید اسی پر پیپلز کانفرنس کے رہنما سجاد لون نے بی وی آر سبھرامنیم کا نام لئے بغیر انہیں 'کشمیر دشمن' قرار دیا۔
انہوں نے کہا سبھرامنیم کے دل میں کشمیریوں کے خلاف برہنہ منافرت ہے۔
یہ سلسلہ یہی پر نہیں رکا بلکہ تب سے لیکر آج تک سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ بھی اس پر مسلسل ٹویٹ کر رہے ہیں۔
انہوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا: 'جموں و کشمیر حکومت کی طرف سے ایک بہت ہی غیر معمولی حکم جاری کیا گیا۔ اگر میں صحیح ہوں تو سبکدوش ہونے والے چیف سیکریٹری اپنے جانشین کو چارج سونپنے کے خواہشمند نہیں تھے۔ میں نے اس سے پہلے ایسا آرڈر نہیں دیکھا۔'
دوسرے ٹویٹ میں انہوں نے لکھا 'ایک ایسا شخص جس نے کہا تھا کہ جب 2019 میں مرکزی دھارے میں شامل سیاست دانوں کو حراست میں لیا گیا تھا تو کوئی کشمیری آنسو نہیں بہا رہا تھا۔ 2021 میں ایسا لگتا ہے کہ سب لوگ انہیں (سبھرامنیم) کو باہر کا راستہ دکھانے کا انتظار کر رہے ہیں۔'
جب جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کی گئی تھی تب کئی لوگ 'ایک ودھان، ایک نشان' کا نعرہ لگا رہے تھے لیکن جوں جوں چیف سیکریٹری کا معاملہ گہرا ہو رہا ہے لوگ اس پر اب طنز کرنے لگے ہیں۔
کچھ لوگوں نے لکھا ٹویٹر پر لکھا 'ایک ودھان، ایک نشان اور دو چیف سیکریٹریز۔'
عمر عبدللہ نے ایک اور ٹویٹ میں لکھا 'جموں و کشمیر کے دو چیف سکریٹریز۔ انتظامیہ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ کچھ افسران سبکدوش ہوئے چیف سیکریٹری کے وفادار ہیں اور ایک دوسرا طبقہ ہے جو آگے بڑھ کر کام کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کریں۔ کافی گڈ گورننس اور شفاف ماحول ہے۔'
چیف سیکرٹری کے عہدے پر یہ کنٹروورسی چند روز میں ختم ہوگی۔ ممکن ہے کہ سبھرامنیم سیکرٹریٹ جاکر ارون مہتا کو چارج بھی دیں گے لیکن اس کشمکش سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ جموں و کشمیر میں موجود مسائل پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں۔ اب ایک کے بجائے کئی پاور سینٹر ایک بدقسمت خطے کی حکمرانی کررہے ہیں۔