دسمبر 2020 کو قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) کے ایک خصوصی جج نے پرہ کو تیس دن کی عدالتی تحویل میں بھیجنے کا حکم سنایاتھا۔ اس کے بعد انہیں جموں کی امفلہ جیل منتقل کر دیا گیا۔ تاہم پرہ بعد میں این آئی اے کورٹ کے اسپیشل جج نے انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد جموں کے ڈسٹرکٹ کورٹ کے احاطے سے وحید کو جموں کشمیر پولیس کی ایک خصوصی برانچ نے حراست میں لے لیا اور آج انہیں پھر سے جموں کشمیر پولیس کی سپیشل پرانچ (کرمنل انویسٹیگیشن کشمیر) نے کورٹ میں پیش کیا، جسے کے بعد کورٹ نے انہیں 30 جنوری سے پانچ روز تک پولیس ریمانڈ میں رہنے کا حکم دیا ہے۔
واضح رہے کہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے نوجوان رہنما وحید الرحمن پرہ نے 22 دسمبر کو پلوامہ کے ایک حلقہ سے ڈسٹرکٹ ڈیولپمنٹ انتخاب میں 1008 ووٹوں سے جیت حاصل کی ہے۔ وہ وادی کے ایسے پہلے امیدوار ہیں جو جیل میں قید رہنے کے باوجود جیت حاصل کی ہے۔
نامزدگی داخل کرنے کے پانچ دن بعد انہیں قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) نے 25 نومبر2020 کو نئی دہلی میں گرفتار کیا تھا۔
جب نئی دہلی نے 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کیا تو وحید کو چھ ماہ کے لئے گرفتار کیا گیا تھا۔
گزشتہ برس این آئی اے نے وحید پرہ پر الزام لگایا کہ وہ عسکریت پسندی کے ایک بڑے معاملے سے منسلک ہیں جس میں جموں و کشمیر پولیس کے سابق ڈی ایس پی دیویندر سنگھ بھی شامل بتائے جاتے ہیں۔
گزشتہ ماہ 19 دسمبر 2020 کو قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) کے ایک خصوصی جج نے وحید پرہ کو تیس دن کی عدالتی تحویل میں بھیجنے کا حکم سنایا۔ اس کے بعد انہیں جموں کی امفلہ جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔
پوچھ گچھ کے بعد وحید پرہ پر ایک ملزم عرفان شفیع میر سے مبینہ طور پر 'قریبی روابط' کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
خیال رہے وحید پرہ کو حزب المجاہدین عسکریت پسند نوید بابو کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا اور اس سال کے شروع میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس دیویندر سنگھ کو معطل کیا گیا تھا۔