ریاست جموں و کشمیر کے وسطی ضلع گاندربل کے کنگن علاقے میں صدیوں پرانی پتھروں کا تعمیری ورثہ حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہے۔
تاہم علاقے کے لوگوں کا الزام ہے کہ ریاستی اور مرکزی حکومتوں نے ناراناگ کو سرے سے نظرانداز کیا ہوا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ 8ویں صدی میں یہ مندر للیت آدیتیہ مکتاپیدا نے بنوایا تھا۔ صدیوں پہلے یہاں پر بھگوان شیو کی پوجا بھی کی جاتی تھی۔
سنہ 1990 میں محکمہ آثار قدیمہ کا سرینگر دفتر جموں منتقل کر دیا گیا جو پھر کبھی واپس وادی نہیں لایا گیا۔ جسکی وجہ سے وادی میں کئی آثار قدیمہ اور تاریخی مقامات خستہ حال ہیں جس میں سے ایک یہ بھی ہے۔
چند سال پہلے یہاں اس قدیم ورثہ کے آس پاس کافی زمین کھلی ہوا کرتی تھی تاہم آج کل آبادی کے بڑھنے کی وجہ سے اس جگہ کے چاروں اطراف رہائشی مکانات اور دیگر کئ طرح کے تعمیرات ہو گئے ہیں۔ وہیں زمین بھی اب پہلے جیسی خالی نہیں رہی۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت اس قدیم ورثہ کا تحفظ کرے اور دنیا کو اس تاریخی حیثیت کے حامل جگہ کے بارے میں جانکاری فراہم کرے، تاکہ کثیر تعداد میں سیاح اور دیگر افراد یہاں آئے اور اس سے لوگوں کو روزگار کے مواقع کی فراہمی کے ساتھ ساتھ یہ جگہ بھی دنیا بھر میں جانی پہچانی جائے۔