ایڈیٹرز گلڈ نے مسرت زہرہ کے خلاف یو اے پی اے، انسداد شدت پسندی کے قانون کو لاگو کرنے کے پولیس کے فیصلے کو طاقت کا غلط استعمال قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ' ملک کے باقی حصوں میں بھی صحافیوں کو دھمکانے کا ایک بالواسطہ طریقہ ہے۔' ایڈیٹرز گلڈ نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ پیرزادہ عاشق کے خلاف شکایت اس کے ایڈیٹر کے ساتھ اٹھائی جا سکتی تھی۔
واضح رہے کہ جموں وکشمیر پولیس کے سائبر سیل نے سرینگر میں مقیم دو صحافیوں مسرت زہرہ جو ایک آزادانہ فوٹوگرافر اور پیرزادہ عاشق سے نمٹنے کے لئے مروجہ قوانین کا استعمال کیا ہے۔ پیرزادہ عاشق 'دی ہندو' کے لیے رپورٹر کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ پیرزادہ عاشق کی جانب سے شائع کی گئی ایک رپورٹ کے سلسلے میں صرف ایف آئی آر درج کی گئی ہے لیکن مسرت زہرہ کے خلاف غیر قانونی سرگرمیاں روک تھام ایکٹ کا استعمال کیا گیا ہے۔
ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ 'صحافیوں کو کسی قسم کی تکلیف نہیں دی جانی چاہئے۔ اگر حکومت کو ان کی رپورٹنگ سے کوئی شکایت ہے تو معمول کے مطابق اس طرح کے معاملات سے نمٹنے کے اور بھی طریقے ہیں۔ حقیقت پسندانہ تصویروں کو سوشل میڈیا پر شائع کرنا انسداد شدت پسندی کے سخت ترین قوانین کو راغب نہیں کرسکتی ہیں۔ اور دی ہندو رپورٹر کے معاملے میں اخبار کے ایڈیٹر کو شکایت کرنا صحیح طریقہ تھا۔
ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے جموں و کشمیر انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ دونوں صحافیوں کے خلاف عائد کئے گئے الزامات کو فروی طور واپس لے۔