بابا سخی زین الدین ولی کےعرس مبارک کے سلسلے میں اگرچہ عیشمقام میں ان کے آستانے پر تمام تقریبات منسوخ ہوئی تاہم لوگوں نے لاک ڈاؤن کے دوران اور انتظامیہ کے احکامات کی پاسداری کرتے ہوئے گھروں میں روایتی زول جلا کر اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کیا۔
وقف بورڈ کے احکامات کے بعد عیشمقام میں زول کا اہتمام نہیں ہوا تاہم اننت ناگ و عیشمقام سمیت جنوبی کشمیر کے مختلف علاقوں میں عقیدت مندوں خاص کر بچوں نے زول کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے موجودہ حالات میں روشنی بکھیر کر یہ پیغام دیا کہ غموں کے اندھیرے زیادہ دیر تک نہیں ٹکنے والے۔
واضح رہے کہ ولی کامل سخی زین الدین ولی رحمۃ اللہ علیہ کی درگاہ وادی کے بڑے اور عظیم درگاہوں میں شمار ہوتی ہے یہاں سال بھر ملک و وادی کے مختلف حصوں سے بلا مذہب و ملت زائرین کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے...درگاہ پر ہر برس رواں ماہ کے دوران شب دوم یعنی شب خوانی اور اس کے اگلے روز زول(چراغاں) کا اہتمام کیا جاتا ہےجس میں ہزاروں کی تعداد میں عقیدت مند شرکت کرکے ولی اللہ کے تعین عقیدت کا اظہار کرتے ہیں...زائرین اس روز اپنے ساتھ لکڑی کے مشعل ساتھ لاتے ہیں اور شام کے اوقات کے دوران انہیں جلا کر سخی زین الدین ولی کے کمالات اور یاد خداوندی کے جذبات کو سلام پیش کرتے ہیں۔
مقامی بزگوں کے مطابق دراصل ایک زمانے میں اس علاقہ میں ایک آدم خور جن (دیو) نے ظلم ڈھا کر لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی تھی۔ اس جن نے عیشمقام کی پہاڑی میں ایک غار میں پناہ لی تھی۔ تاہم ایک روز ایک نوجوان نے اُس جن کا خاتمہ کیا اور پوری بستی ظلم و جبر سے آزاد ہوگئ جس کے بعد لوگوں نے شادیانے (خوشی) کے طور لڑیاں جلا کر پورے علاقے کو چراغاں کیا۔ تب سے وہ روایت جاری رہی اور اسے کشمیری میں زول کا نام دیا گیا۔ دراصل وہ نوجوان سخی زین الدین ولی تھے۔ بعد میںوہ اُسی جن کی غار میں یاد خداوندی میں مشغول ہو گئے۔ اَسی غار میں ان کا مقبرہ بھی موجود ہے۔