ETV Bharat / state

پریس فریڈم ڈے: کشمیر میں صحافت کا سچ - aasif sultan

دنیا بھر میں آج کے دن ہی 'پریس فریڈم ڈے' کی مناسبت سے تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے تاہم کشمیر میں دو صحافیوں کی کہانی یہ عیاں کرتی ہے کہ وادی میں صحافیوں کی زندگی کس قدر خطرات میں گھِری ہوئی ہے اور اس کی واضح مثال گذشتہ برس ہلاک کیے گئے سینیئر صحافی شجاعت بخاری اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے آصف سلطان ہیں۔

پریس فریڈم ڈے پر کشمیر میں صحافت کا سچ
author img

By

Published : May 3, 2019, 5:33 PM IST

Updated : May 3, 2019, 10:58 PM IST

سنہ 2018 کے اگست ماہ میں نوعمر صحافی آصف سلطان کو پولیس نے حراست میں لیا اور آج تک وہ جیل میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔

پریس فریڈم ڈے پر کشمیر میں صحافت کا سچ

سرینگر کے بٹہ مالو علاقے کے رہنے والے آصف سلطان ایک انگریزی جریدے "کشمیر نیریٹر" کے ساتھ منسلک تھے۔ ان کو پولیس نے عسکرت پسندوں سے رابطے کے الزام میں حراست میں لیا-

تاہم آصف سلطان کے والد محمد سلطان نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ " ان کا بیٹا معصوم ہے، پولیس نے اسے ہلاک شدہ عسکریت پسند برہان وانی پر کہانی لکھنے کی پاداش میں گرفتار کیا اور ابھی بھی سرینگر کے سینٹرل جیل میں قید ہے"۔

محمد سلطان نے پولیس کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بیٹے نے کبھی بھی عسکریت پسندوں کی حمایت نہیں کی۔

یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹز (سی پی جے) نے رواں برس کے جنوری میں ریاستی پولیس اور گورنر سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ آصف سلطان کو رہا کرے۔

کشمیر کے انگریزی روزنامے "رائزنگ کشمیر" کے مدیر شجاعت بخاری کو پچھلے سال جون میں نامعلوم بندوق برداروں نے ہلاک کر دیا تھا۔ اور ریاستی پولیس نے عسکریت پسند تنطیم لشکر طیبہ کو ان کی ہلاکت کا قصوروار قرار دیا۔

تاہم رائزنگ کشمیر کے ساتھ منسلک سینیئر صحافی راشد مقبول نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ شجاعت بخاری کو نامعلوم بندوق برداروں نے انتہائی بے دردی کے ساتھ قتل کیا۔

راشد مقبول کا کہنا ہے کہ حیران کن بات یہ ہے کہ ایک برس گزرنے کے بعد بھی پولیس کی تحقیقات میں کوئی حتمی بات سامنے نہیں آئی ہے اور بہت سے سوالات اب بھی وہیں کے وہیں ہیں۔

راشد مقبول کا مزید کہنا تھا کہ شجاعت بخاری کا قتل سسٹم کے خلاف ایک چیلنج ہے۔ ارباب اقتدار صحافیوں کی حفاظت کو یقینی بنائے۔

سنہ 2018 کے اگست ماہ میں نوعمر صحافی آصف سلطان کو پولیس نے حراست میں لیا اور آج تک وہ جیل میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔

پریس فریڈم ڈے پر کشمیر میں صحافت کا سچ

سرینگر کے بٹہ مالو علاقے کے رہنے والے آصف سلطان ایک انگریزی جریدے "کشمیر نیریٹر" کے ساتھ منسلک تھے۔ ان کو پولیس نے عسکرت پسندوں سے رابطے کے الزام میں حراست میں لیا-

تاہم آصف سلطان کے والد محمد سلطان نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ " ان کا بیٹا معصوم ہے، پولیس نے اسے ہلاک شدہ عسکریت پسند برہان وانی پر کہانی لکھنے کی پاداش میں گرفتار کیا اور ابھی بھی سرینگر کے سینٹرل جیل میں قید ہے"۔

محمد سلطان نے پولیس کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بیٹے نے کبھی بھی عسکریت پسندوں کی حمایت نہیں کی۔

یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹز (سی پی جے) نے رواں برس کے جنوری میں ریاستی پولیس اور گورنر سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ آصف سلطان کو رہا کرے۔

کشمیر کے انگریزی روزنامے "رائزنگ کشمیر" کے مدیر شجاعت بخاری کو پچھلے سال جون میں نامعلوم بندوق برداروں نے ہلاک کر دیا تھا۔ اور ریاستی پولیس نے عسکریت پسند تنطیم لشکر طیبہ کو ان کی ہلاکت کا قصوروار قرار دیا۔

تاہم رائزنگ کشمیر کے ساتھ منسلک سینیئر صحافی راشد مقبول نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ شجاعت بخاری کو نامعلوم بندوق برداروں نے انتہائی بے دردی کے ساتھ قتل کیا۔

راشد مقبول کا کہنا ہے کہ حیران کن بات یہ ہے کہ ایک برس گزرنے کے بعد بھی پولیس کی تحقیقات میں کوئی حتمی بات سامنے نہیں آئی ہے اور بہت سے سوالات اب بھی وہیں کے وہیں ہیں۔

راشد مقبول کا مزید کہنا تھا کہ شجاعت بخاری کا قتل سسٹم کے خلاف ایک چیلنج ہے۔ ارباب اقتدار صحافیوں کی حفاظت کو یقینی بنائے۔

Intro:اگرچہ دنیا بھر میں آج کے دن 'پریس فریڈم ڈی' کے متلعق تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے تاہم کشمیر میں دو صحافیوں کی کہانی یہ عیاں کرتی ہے کہ وادی میں صحافیوں آصف سلطان اور سجاعت بخاری کی زندگی پر کس طرح خطرے کے تلوار اٹکتی رہتی ہے۔



Body:سنہ 2018 کے اگست کے مہینے میں نوعمر صحافی آصف سلطان کو پولیس نے حراست میں لیا اور آجتک وہ جیل میں بند پڑا ہے۔

سرینگر کے بٹہ مالو علاقے کے رہنے والے آصف سلطان جو ایک انگریزی خریدے "کشمیر نریٹر" کے ساتھ صحافت انجام دے رہے تھے کو پولیس نے اس الزام پر حراست میں لے لیا کہ وہ " عسکریت پسندوں کے رابطے میں رہے اور انکی سرگرمیوں کو فروغ دیتے تھے"-

تاہم آصف سلطان کے والد محمد سلطان نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ انکا بیٹا "معصوم ہیں اور پولیس نے اسکو ہلاک شدہ عسکریت پسند برہان وانی پر کہانی لکھنے پر گرفتا کیا اور ابھی بھی سرینگر کے سینٹرل جیل میں قید ہے"۔

محمد سلطان نے پولیس کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انکے بیٹے نے کبھی بھی عسکریت پسندوں کی حمایت نہیں کی ہے۔

قابل غور بات ہے کہ صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے رواں برس کے جنوری میں ریاستی پولیس اور گرونر سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ محبوس صحافی آصف سلطان کو رہا کرے۔


کشمیر کے انگریزی روزنامے "رائزنگ کشمیر" کے مدیر شجاعت بخاری کو پچھلے سال جون کے مہینے میں نامعلوم بندوق برداروں نے ہلاک کیا تھا۔ اور ریاستی پولیس نے عسکریت پسند تنطیم لشکر طیبہ کو انکی ہلاکت کا قصوروار قرار دیا تھا۔

تاہم رائزنگ کشمیر کے ساتھ منسلک سینئرصحافی راشد مقبول نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ شجاعت بخاری کو نامعلوم بندوق برداروں نے انتیائی بے دردی کے ساتھ قتل کیا۔

راشد مقبول کا کہنا ہے کہ حیران کن بات ہے کہ ایک برس گزرنے کے بعد بھی پولیس نے تحقیقات میں کوئی حتمی بات سامنے نہیں آئی ہے اور بہت سے جواب طلب سوالات پیدا ہوئے۔

راشد مقبول کا مزید کہنا تھا کہ شجاعت بخاری کا قتل یہی سوال کھڑا کرتا ہے کہ ارباب اقتدار صحافیوں کی حفاظت کو یقینی بنائے۔





Conclusion:
Last Updated : May 3, 2019, 10:58 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.