سنہ 2018 کے اگست ماہ میں نوعمر صحافی آصف سلطان کو پولیس نے حراست میں لیا اور آج تک وہ جیل میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔
سرینگر کے بٹہ مالو علاقے کے رہنے والے آصف سلطان ایک انگریزی جریدے "کشمیر نیریٹر" کے ساتھ منسلک تھے۔ ان کو پولیس نے عسکرت پسندوں سے رابطے کے الزام میں حراست میں لیا-
تاہم آصف سلطان کے والد محمد سلطان نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ " ان کا بیٹا معصوم ہے، پولیس نے اسے ہلاک شدہ عسکریت پسند برہان وانی پر کہانی لکھنے کی پاداش میں گرفتار کیا اور ابھی بھی سرینگر کے سینٹرل جیل میں قید ہے"۔
محمد سلطان نے پولیس کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بیٹے نے کبھی بھی عسکریت پسندوں کی حمایت نہیں کی۔
یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹز (سی پی جے) نے رواں برس کے جنوری میں ریاستی پولیس اور گورنر سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ آصف سلطان کو رہا کرے۔
کشمیر کے انگریزی روزنامے "رائزنگ کشمیر" کے مدیر شجاعت بخاری کو پچھلے سال جون میں نامعلوم بندوق برداروں نے ہلاک کر دیا تھا۔ اور ریاستی پولیس نے عسکریت پسند تنطیم لشکر طیبہ کو ان کی ہلاکت کا قصوروار قرار دیا۔
تاہم رائزنگ کشمیر کے ساتھ منسلک سینیئر صحافی راشد مقبول نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ شجاعت بخاری کو نامعلوم بندوق برداروں نے انتہائی بے دردی کے ساتھ قتل کیا۔
راشد مقبول کا کہنا ہے کہ حیران کن بات یہ ہے کہ ایک برس گزرنے کے بعد بھی پولیس کی تحقیقات میں کوئی حتمی بات سامنے نہیں آئی ہے اور بہت سے سوالات اب بھی وہیں کے وہیں ہیں۔
راشد مقبول کا مزید کہنا تھا کہ شجاعت بخاری کا قتل سسٹم کے خلاف ایک چیلنج ہے۔ ارباب اقتدار صحافیوں کی حفاظت کو یقینی بنائے۔