نیشنل کانفرنس کے اراکین پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ، محمد اکبر لون، حسنین مسعودی اور سینئر لیڈران محمد شفیع اوڑی، میاں الطاف احمد، شمی اوبرائے، قمر علی آخون، دیوندر سنگھ رانا، خالد نجیب سہروردی اور جاوید رانا نے اپنے مشترکہ بیان میں شری نتن گڑکری کے اُس بیان کا خیر مقدم کیا ہے جس میں موصوف نے کہا ہے کہ 'بھارت پاکستان یا چین سے زمین کی توسیع میں دلچسپی نہیں رکھتا' اور 'بھارت صرف امن اور ہم آہنگی چاہتا ہے'۔
بیان میں تنن گڑکری کی قد کے لیڈر کی طرف سے اُس جرات مندانہ اعتراف کا بھی خیر مقدم کیا گیا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ 'میں اور میرے ساتھی بھارت کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں' اور 'طاقت توسیع سے نہیں آتی ہے' اور وہ 'امن نہ کہ تشدد' چاہتے ہیں اور وہ 'مل کر کام کرنا چاتے ہیں'۔
بیان میں جارحانہ اور سخت رویہ میں تبدیلی پر بھی اطمینان ظاہر کیا گیا کہ جہاں پہلے آئے روز لائن آف کنٹرول کے اُس پار حملوں اور کارروائیوں کی باتیں ہورہی تھیں وہیں آج وزیر دفاع راجناتھ سنگھ اپنے پارٹی ورکروں سے خطاب میں مصالحت کی وکالت کرتے دیکھے گئے۔
بیان میں کہا گیا کہ 'امن، محبت اور ہم آہنگی' کی فضا محض بیان بازی سے قائم نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی یہ بیانات تب تک کوئی معنی رکھتے جب تک نہ حکومت ہند جموں وکشمیر کے عوام کے سیاسی جذبات اور خواہشات کا احترام نہیں کرتی۔
بیان میں جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن اور وقتاً فوقتاً دی گئی آئینی ضمانتوں کی بحالی کی ضرورت پر زور دیا گیا، جو 5 اگست 2019 کو غیر جمہوری، غیرآئینی، من مانے اور یکطرفہ طور پر جموں و کشمیر کے عوام سے چھین لی گئیں۔ 5 اگست 2019 کے فیصلوں کو منسوخ کرنا اور تمام فریقین کے ساتھ غیر مشروط بات چیت کرنا خطے میں پائیدار امن اور خوشحالی کے لئے اہم ہے۔
مشترکہ بیان میں 5 اگست 2019 کے تمام فیصلوں کو فی الفور منسوخ کرنے اور جموں و کشمیر کی 4 اگست 2019 کی آئینی پوزیشن بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
بیان میں لائن آف کنٹروں اور سرحدوں پر جاری جھڑپوں اور اس کے نتیجے میں ہورہے جان و مال کے نقصان پر زبردست تشویش اور دکھ کا اظہار کیا گیا۔ اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی، سرحدی علاقوں میں شہری آبادی بہت زیادہ معاشی بدحالی کا شکار ہے اور سرحدوں پر جاری گولہ باری ان کے مسائل کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔
نیشنل کانفرنس لیڈران نے کرگل- اسکردو، جموں - سیالکوٹ، پونچھ - راولاکوٹ سمیت تمام روایتی راستوں کے کھولنے کا بھی مطالبہ کیا، تاکہ کنٹرول آف لائن اور سرحدی آبادی کو آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دی جاسکے اور عوام کو عوام سے رابطہ کرنے اور بین الاقوامی علاقائی تجارت اور ثقافتی روابط کو تقویت مل