لائن آف کنٹرول سے متعلق اکثر خبریں پڑھنے میں ناخوشگوار رہی ہیں کیونکہ بھارت اور پاکستان کے مابین گولہ باری، شہری ہلاکتیں ایک معمول کی بات ہے۔ لیکن حالیہ دنوں لائن آف کنٹرول سے متعلق ایک خبر اچانک منظر عام پر آئی جس نے سرحد کے دونوں اطراف کے امن پسند لوگوں، خاص طور پر ایل او سی کے دونوں اطراف کے سرحدی علاقوں کے قریب رہنے والے دیہات کے لئے خوشی کی نوید پیدا کی ہے۔ یہ خبر بھارت اور پاکستان کے مابین 2003 میں ہونے والے سیز فائر معاہدے کی پاسداری کا اعلان تھی۔
- ایل او سی پر 2003 میں فائر بندی کے معاہدے پر عمل درآمد کی تاریخ
ایل او سی پر 2003 میں فائر بندی کے معاہدے کی تاریخ بہت مختلف رہی ہے۔ 2003 میں نومبر سے 2008 نومبر تک مجموعی طور پر ایل او سی پر امن رہا کیونکہ دونوں فریقوں نے سیز فائر معاہدے کا بحیثیت مجموعی احترام کیا۔ لیکن 26/11 کے ممبئی حملوں کے بعد پاکستان کی طرف سے سیز فائر کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوا۔ سنہ 2016 کو چھوڑ کر، سنہ 2012 سے پاکستان نے مسلسل جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ہے اور گذشتہ برسوں میں اس کی خلاف ورزی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اگر ہم پچھلے تین سال 2018 سے 2021 تک کے اعداد و شمار دیکھیں تو پاکستان نے 10،752 بار سیز فائر کی خلاف ورزی کی ہے۔ سال 2020 پاکستان کی طرف سے 5133 خلاف ورزیاں کی گئی۔
- صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے پہلے کئے گئے اقدامات
2013 میں صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کیے گئے۔ بھارت - پاک ڈی جی ایم اوز (ڈائریکٹرز جنرل آف ملٹری آپریشنز) نے دو کوششیں کیں لیکن وہ صورتحال کو قابو کرنے میں ناکام رہے۔ ایک بار پھر 2018 میں ڈی جی ایم اوز نے 2003 کے فائر بندی کے معاہدے پر عمل درآمد کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
- بھارت اور پاکستان کے مابین معاہدہ کیسے ہوا؟
یہ اچانک نہیں ہوا ہے بلکہ نیوز رپورٹس کے مطابق دونوں ممالک کے مابین صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے گذشتہ 3 ماہ سے بیک چینل کے ذریعے بات چیت ہورہی تھی۔ بھارت کی نمائندگی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول نے کی جبکہ پاکستان کے نمائندے کے بارے میں چیزیں ابھی صاف نہیں ہیں۔ لیکن بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ اس پر قمر جاوید باجوہ کی سربراہی میں پاک فوج کی حمایت حاصل تھی۔
حالیہ دنوں میں دونوں اطراف کسی حد تک امن دیکھا گیا جو بالآخر جنگ بندی معاہدے کی پاسداری میں تبدیل ہوا۔ پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے حال ہی میں کہا تھا کہ 'پاکستان باہمی احترام اور پرامن بقائے باہمی اور تعاون پر کاربند ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تمام شعبوں میں امن کا ہاتھ بڑھایا جاسکے۔'
عام طور پر پاکستان مسئلہ کشمیر کو ہر کثیرالقومی فورم پر اٹھاتا رہا ہے لیکن اس نے 18 فروری کو ہونے والی کووڈ - 19 مینجمنٹ اجلاس میں اس مسئلے کو نہیں اٹھایا۔ جنگ بندی معاہدے کے اعلان سے عین قبل بھارتی حکومت نے عمران خان کو سری لنکا جانے کے لئے بھارتی فضائی حدود کا استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔
- پاکستان کی ایل او سی امن معاہدے پر دستخط کرنے کی کیا وجہ رہی؟
پاکستان نے پچھلے دو سالوں سے مسئلہ کشمیر پر بھارت کو گھیرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھارت کو مورد الزام ٹھہرانے کے لئے ہر فورم کا استعمال کیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ آئندہ امن مذاکرات کے لئے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے مودی حکومت کے فیصلے کو واپس لینا لازمی ہوگا۔ تو پھر کیوں پاکستان کے رویہ میں اچانک تبدیلی آئی۔ پاکستان کی مفلوج معاشی صورتحال، بڑھتے قرض، کشیدگی کے بعد بھارت اور چین کے درمیان مفاہمت، بلوچستان میں پریشانی اور امریکہ میں نئی حکومت وہ عوامل ہیں جنہوں نے پاکستان کو بھارت کے ساتھ جنگ بندی پر اتفاق کرنے پر مجبور کیا ہے۔
- ایل او سی کے قریب دیہات پر امن معاہدے کے اثرات
ایل او سی کے قریب واقع دیہات کے لوگ امن معاہدے کی پاسداری سے سب سے زیادہ خوش ہیں۔ سرحدی علاقوں میں بار بار گولہ باری ہوتی تھی، ان کے پیارے ان کی آنکھوں کے سامنے مر جاتے تھے، اسکولوں اور مکانات کو نقصان پہنچا ہے اور بعض اوقات گولہ باری سے بچنے کے لئے بنکر میں چھپ جاتے تھے جس سے ان کی زندگی جہنم بن جاتی تھی۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پچھلے تین سالوں میں پاکستان کی جانب سے بلا اشتعال فائرنگ کی وجہ سے 70 افراد ہلاک اور 341 زخمی ہوئے ہیں۔ سرحد سے ملحقہ دیہات میں رہنے والے لوگوں کے لئے یہ خوش آئند تبدیلی ہے۔ وہ دونوں ممالک سے صلح کے سوا اور کچھ نہیں چاہتے ہیں تاکہ ان کی زندگیوں میں امن کی واپسی ہو۔