ETV Bharat / state

کشمیر: بڑی درد بھری ہے صحافیوں کی کہانی - وادی کشمیر

شورش زدہ ریاست جموں و کشمیر میں گذشتہ تین دہائیوں کے دوران جہاں ہر طبقہ متاثر ہوا ہے، وہیں یہاں کے صحافی بھی حد درجہ مشکلات سے دوچار ہوئے ہیں۔

فائل فوٹو۔
author img

By

Published : Mar 21, 2019, 6:12 AM IST


وادی کشمیر کے صحافیوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ جو دوسروں کے مسائل و پریشانی کو حکومت و انتظامیہ تک پہنچاتے ہیں، ان کی حالت جان کر آپ بھی دنگ رہ جائیں گے۔

متعلقہ ویڈیو۔

شورش زدہ ریاست جموں و کشمیر میں گذشتہ تین دہائیوں کے دوران جہاں ہر طبقہ متاثر ہوا ہے وہیں یہاں کے صحافی بھی حد درجہ مشکلات سے دوچار ہوئے ہیں۔

ریاست میں کشیدہ حالات ہونے کے باوجود صحافی بخوبی اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

سکیورٹی کے موثر انتظامات نہ ہونے کے باوجود صحافی ہر خبر کو عوام تک پہنچانے کے لیے ذرہ برابر بھی تساہلی نہیں برتتے۔

گزشتہ برسوں کے دوران 15 صحافی جان گنوا بیٹھے جبکہ کم از کم 20 صحافی پیلٹ یا گولی لگنے سے زخمی ہوئے۔

صحافیوں کا ماننا ہے کہ فورسز کی جانب سے صحافیوں کو بسا اوقات نشانہ بھی بنایا جاتا ہے لیکن انتظامیہ کبھی ان کی حفاظت کے تیئں سنجیدہ نہیں رہی۔

صحافت کے علمبر دار سید شجاعت بخاری بھی اسی تشدد کے شکار بنے۔ ظہیب مقبول نامی ایک فوٹو جرنلسٹ ہمیشہ کے لیے آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو گئے۔

نیز اس دوران متعدد صحافیوں کے خلاف مقدمے بھی درج کئے گئے جن میں کامران یوسف اور آصف سلطان قابل ذکر ہیں۔

تشدد کے شکار صحافی نثار الحق نے کہا: 'اب میں اپنا کام آزادانہ طور پر انجام نہیں دے پا رہا ہوں اور میری جان کو ہر وقت خطرہ رہتا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ صبح کام پر جاتے وقت انہیں واپس آنے کا بھروسہ ہی نہیں ہوتا ہے۔


وادی کشمیر کے صحافیوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ جو دوسروں کے مسائل و پریشانی کو حکومت و انتظامیہ تک پہنچاتے ہیں، ان کی حالت جان کر آپ بھی دنگ رہ جائیں گے۔

متعلقہ ویڈیو۔

شورش زدہ ریاست جموں و کشمیر میں گذشتہ تین دہائیوں کے دوران جہاں ہر طبقہ متاثر ہوا ہے وہیں یہاں کے صحافی بھی حد درجہ مشکلات سے دوچار ہوئے ہیں۔

ریاست میں کشیدہ حالات ہونے کے باوجود صحافی بخوبی اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

سکیورٹی کے موثر انتظامات نہ ہونے کے باوجود صحافی ہر خبر کو عوام تک پہنچانے کے لیے ذرہ برابر بھی تساہلی نہیں برتتے۔

گزشتہ برسوں کے دوران 15 صحافی جان گنوا بیٹھے جبکہ کم از کم 20 صحافی پیلٹ یا گولی لگنے سے زخمی ہوئے۔

صحافیوں کا ماننا ہے کہ فورسز کی جانب سے صحافیوں کو بسا اوقات نشانہ بھی بنایا جاتا ہے لیکن انتظامیہ کبھی ان کی حفاظت کے تیئں سنجیدہ نہیں رہی۔

صحافت کے علمبر دار سید شجاعت بخاری بھی اسی تشدد کے شکار بنے۔ ظہیب مقبول نامی ایک فوٹو جرنلسٹ ہمیشہ کے لیے آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو گئے۔

نیز اس دوران متعدد صحافیوں کے خلاف مقدمے بھی درج کئے گئے جن میں کامران یوسف اور آصف سلطان قابل ذکر ہیں۔

تشدد کے شکار صحافی نثار الحق نے کہا: 'اب میں اپنا کام آزادانہ طور پر انجام نہیں دے پا رہا ہوں اور میری جان کو ہر وقت خطرہ رہتا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ صبح کام پر جاتے وقت انہیں واپس آنے کا بھروسہ ہی نہیں ہوتا ہے۔

Intro:Body:

کشمیر: بڑی درد بھری ہے صحافیوں کی کہانی

 



وادی کشمیر کے صحافیوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ جو دوسروں کے مسائل و پریشانی کو حکومت و انتظامیہ تک پہنچاتے ہیں ان کی حالت جان کر آپ بھی دنگ رہ جائیں گے۔ 



شورش زدہ ریاست جموں و کشمیر میں گذشتہ تین دہائیوں کے دوران جہاں ہر طبقہ متاثر ہوا ہے وہیں یہاں کے صحافی بھی حد درجہ مشکلات سے دوچار ہوئے ہیں۔



ریاست میں کشیدہ حالات ہونے کے باوجود صحافی بخوبی  اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔



سکیورٹی کے موثر انتظامات نہ ہونے کے باوجود صحافی ہر خبر کو عوام تک پہنچانے کے لیے ذرہ برابر بھی تساہلی نہیں برتتے۔ 



گزشتہ برسوں کے دوران 15 صحافی جان گنوا بیٹھے جبکہ کم از کم 20 صحافی پیلٹ یا گولی لگنے سے زخمی ہوئے۔



صحافیوں کا ماننا ہے کہ فورسز کی جانب سے صحافیوں کو بسا اوقات نشانہ بھی بنایا جاتا ہے لیکن انتظامیہ کبھی ان کی حفاظت کے تیئں سنجیدہ نہیں رہی۔



صحافت کے علمبر دار سید شجاعت بخاری بھی اسی تشدد کے شکار بنے۔ ظہیب مقبول نامی ایک فوٹو جرنلسٹ ہمیشہ کے لیے آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو گئے۔



نیز اس دوران متعدد صحافیوں کے خلاف مقدمے بھی درج کئے گئے جن میں کامران یوسف اور آصف سلطان قابل ذکر ہیں۔



تشدد کے شکار صحافی نثار الحق نے کہا: 'اب میں اپنا کام آزادانہ طور پر انجام نہیں دے پا رہا ہوں اور میری جان کو ہر وقت خطرہ رہتا ہے'۔



انہوں نے کہا کہ صبح کام پر جاتے وقت انہیں واپس آنے کا بھروسہ ہی نہیں ہوتا ہے۔


Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.