بھٹہ مالکان کاشتکاروں سے زمین کم سے کم پانچ سال کے لیے قلیل قیمت میں لیز پر لے کر چمنی بناتے ہیں۔ لیز کا وقت مکمل ہوجانے کے بعد زمین کاشت کاروں کو لوٹا دی جاتی ہے۔ واپس ملی زمین کاشتکاری کے لیے موزوں نہیں ہوتی۔ اس زمین کی زرخیزی بھٹوں میں اینٹ بنانے کے دوران ختم ہو جاتی ہے۔ یا یوں کہیں کہ اچھی مٹی ختم ہونے کے بعد بھٹوں کے مالکان کاشتکاروں کو زمین لوٹا دیتے ہیں۔
بھٹے والی زمین پر کاشتکاری کرنا مشقت والا کام ہے۔ رات دن ایک کرنے کے بعد ہی کسان اس زمین پر کچھ اُگا پاتا ہے۔
کاشتکاروں کے مطابق اینٹ بھٹہ کے طور پر استعمال کرنے کے بعد زمین کو اپنی زرخیزی واپس حاصل کرنے میں کم سے کم 26 سال کا وقت لگتا ہے۔
اس سلسلے میں محکمہ زراعت کی طرف سے بنجر بنی زمین کو زرخیز بنانے کی پہل جاری ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے ضلع بڈگام کے زراعت آفیسر شبیر احمد رضوی کا کہنا ہے کہ " بڈگام میں تقریبا 400 اینٹ کے بھٹے ہیں۔ بھٹوں کے مالکان زمین کاٹ کر اینٹ بنالیتے ہیں اور جس سے زمین کی زرخیزی کو نقصان پہنچتا ہے۔ ہمارے پروجیکٹ کے تحت ہم نے تقریبا 800 مقامات سے ایسی زمین کی نشاندہی کر کے زرخیز بنانے کی کوشش کی ہےاور اب ہماری کوششیں رنگ لا رہی ہیں۔"
ان کا مزید کہنا ہے کہ " اس چار سالہ پروجیکٹ کا آغاز 2017 میں ہوا تھا اور اب تک بڈگام بلاک میں ہمیں اچھے نتائج حاصل ہورہے ہیں۔ ہم کاشتکاروں کو مشورے کے ساتھ مفت بیج اور کھاد فراہم کراتے ہیں ۔ کیونکہ یہ زمین بنجر ہوتی ہے تو ہم سب سے پہلے زمین میں نائٹروجن کی مقدار بڑھانے کے لیے مٹر جیسی سبزی کو اگانے کی صلاح دیتے ہیں۔ پھر مکا، گوبھی اور دیگر سبزیوں کو اگانے کو کہا جاتا ہے۔"
وہیں دوسری طرف بڈگام ضلع کے بٹ پورا علاقے کے سرپنچ عبدالغفار صوفی کا کہنا ہے کہ " محکمہ زراعت کے تعاون سے ہم زمین پھر سے زرخیز تو کر پائے ہیں اور ہماری آمدنی بھی بڑی ہے۔
لیکن پانی کی عدم دستیابی کے سبب مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ یہاں کا واٹر ٹیبل بہت نیچے ہے جس وجہ سے ٹیوب ویل کا پانی 300 میٹر کھدائی کے بعد فراہم ہوتا ہے۔"