سرینگر کے زینہ کوٹ ایچ ایم ٹی علاقے کے رہنے والے بشیر احمد خان سوپور قصبے کے نواحی علاقے میں اس وقت ہلاک ہوئے جب عسکریت پسندوں نے سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کی ناکہ پارٹی پر حملہ کیا جس کے بعد وہاں گولیوں کا تبادلہ ہوا تھا۔
اس دوران بشیر احمد خان کے ساتھ ان کا تین سالہ نواسہ بھی تھا جس کی کئی تصاویر سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئیں۔ ایک تصویر میں یہ کمسن بچہ اپنے مردہ نانا کے سینے پر بیٹھا ہوا نظر آ رہا ہے۔ اس تین سالہ بچے کی سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہونے والی جگر سوز تصاویر نے ہر خاص و عام کو متاثر کیا۔
بشیر احمد خان کے بیٹے سہیل احمد نے بتایا کہ ان کے والد کو بدھ کے روز سکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کے دوران اپنے 3 سالہ نواسے کے سامنے اپنی گاڑی سے اتار کر گولی مار دی گئی۔
سہیل احمد نے بتایا کہ ' بعد میں سکیورٹی فورسز نے بچے کو اس کے باپ کے سینے پر رکھا اور تصاویر کھینچیں۔'
اس فائرنگ کے فوراً بعد ہی ایک نامعلوم فوٹوگرافر کی تصویریں سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر گردش کرنے لگیں۔ سینکڑوں افراد نے سکیورٹی فورسز پر الزام عائد کیا کہ وہ بچے کی تصاویر کو پی آر اسٹنٹ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھییں
شہری کو سکیورٹی فورسز نے ہلاک کیا: لواحقین کا دعویٰ
'شہری کی ہلاکت میں سی آر پی ایف ملوث نہیں'
سوپور حملہ: ہلاک شدہ شہری کے تین سالہ نواسے کی دردناک کہانی
تاہم پولیس اور سی آر پی ایف نے ہلاک شدہ بشیر احمد خان کے رشتہ داروں کے الزامات کو مسترد کیا ہے اور کہا کہ بزرگ شہری عسکریت پسندوں کی گولیوں سے ہلاک ہوگئے۔ انہیں سکیورٹی فورسز نے نہیں مارا۔
کشمیر پولیس اور سی آر پی ایف نے ہلاک شدہ کے افراد خانہ کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مذکورہ شہری اور ایک سی آر پی ایف اہلکار کی موت مسجد کے اندر چھپے عسکریت پسندوں کی فائرنگ سے ہوئی۔
آئی جی پی کشمیر زون وجے کمار نے ہلاک شدہ شخص کے اہل خانہ کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ شخص عسکریت پسندوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوا ہے۔
ہلاک شدہ عام شہری کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ اس کو گاڑی سے نیچے اتار کر سی آر پی ایف اہلکاروں نے گولی ماری ہے اور بچے کو اس کی لاش پر بٹھایا گیا جبکہ پولیس نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر سوشل میڈیا پر ایسی خبریں پھیلانے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کی وارننگ دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فائرنگ کے دوران سکیورٹی فورسز نے بچے کو بچایا اور کہا کہ انکے اہل خانہ عسکریت پسندوں کے دباؤ میں آکر سی آر پی ایف پر الزامات عائد کر رہے ہیں۔
ایک تصویر میں ایک پولیس اہلکار نے بچے کو اپنی گود میں لیا ہوا ہے اور دوسری میں پولیس کی جیپ کے اندر رونے والا معصوم بچہ، اس کی قمیض پر خون کے داغ اور اس کے دونوں ہاتھوں میں کوکیز دکھائے گئے تھے۔
یہ تصاویر کس نے کھینچیں، یہ ایک بہت بڑا سوال بن گیا ہے جس کا سی آر پی ایف ا ور پولیس دونوں انکار کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ جب جائے واردات پر ان دو پارٹیوں کے بغیر کوئی موجود ہی نہیں تھا تو تصاویر کس نے نکالی۔
اس سلسلہ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا نے بچے کی شناخت ظاہر کرنے پر پولیس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ کمسن بچوں کے تحفظ سے متعلق قانون یا جوئنائل جسٹس ایکٹ اور بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔
ادھر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان نے بھی اپنی روزانہ کی بریفنگ میں اس واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی مانگ کی۔