گرچہ انتظامیہ نے حفاظت کے لیے اس منڈی میں نیم فوجی اور پولیس اہلکاروں کو تعینات کر رکھا ہے اور منڈی کے چاروں طرف حفاظت کے سخت انتظامات کر رکھے ہیں۔ اس کے باوجود لوگوں نے یہاں سیب نہیں لائے ہیں۔
سیب کی پیٹیوں کو وادی کے باہر لے جانے کی غرض سے یہاں پہنچے چند غیر مقامی ٹرک ڈرائیور سخت مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
ان ڈرائیوروں کے مطابق گزشتہ 15روز سے انہوں نے منڈی میں مال بردار گاڑی نہیں دیکھی ہے۔
غیر مقامی ڈرائیوروں کے مطابق ان کے پیسے بھی ختم ہو رہے ہیں جبکہ وہاں رہنے اور کھانے پینے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔
منڈی میں تعینات سرکاری ملازمین کے مطابق ابھی تک منڈی میں کسی نے بھی مال نہیں لایا اور فیڈریشن کے ملازمین اب زیادہ تر وقت ڈی سی آفس میں ہی گزارتے ہیں۔
ادھر ضلع ترقیاتی کمشنر شوپیاں چودھری محمد یاسین نے بتایا کہ 'لوگوں کی جانب سے مال لانے کی شروعات ہوئی ہے اور ابھی تک 200 ڈبے فروخت کیے گئے ہیں۔'
قابل ذکر ہے کہ جنوبی کشمیر خصوصاً پلوامہ اور شوپیاں کی 90 فیصد آبادی سیبوں کی کاشت اور تجارت سے منسلک ہے۔
کشمیر کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی تصور کی جانے والی میوہ صنعت سے سالانہ 8 ہزار کروڑ روپے کی تجارت کی جاتی ہے۔