سمو گاڑیوں ،آٹورکھشا کے ساتھ ساتھ منی بسوں کی اچھی خاصی تعداد سڑکوں پر دوڑتی نظر آئی ۔ البتہ ضلع انتظامیہ سرینگر نے کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر بازاروں میں 50فیصد دوکانیں کھولنے کی اجازت دی ہے ۔ جبکہ بسوں میں 50فیصد مسافروں کو سوار کرنے کی اجازت ہے۔
میکسی کیبز میں4،ٹیکسی اور آٹو رکھشاؤں میں دو دو افراد کو ہی سوار ہونے کو کہا گیا ہے۔
وہیں ضلع انتظامہ نے جاری کردہ اپنے ایک حکم نامے میں کہا کہ دوکانیں اور پبلک ٹرانسپورٹ سروس کو دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ موجودہ صورتحال کے مختلف پہلوؤں پر محتاط غورو فکر کے بعد کیا گیا ہے۔جس میں دوکانداروں اور صارفین پر زور دیا گیا ہے کہ وہ رہنما خطوط پرمن عن عمل کریں تاکہ وائرس کو مزید پھیلنے سے روکاجاسکے۔
ادھر گزشتہ کل وادی کشمیر میں پانچ ماہ بعد تمام عبادت گاہیں بھی دوبار کھول دی گئیں تاہم انتظامیہ نے کروناوائرس کے بڑھتے معاملات کے تناظر میں عقیدت مندوں سے تاکید کی ہے کہ وہ عبادت گاہوں کے اندر جانے کے دوران احتیاطی تدابیر پر سختی کے ساتھ عمل پیرا رہے ۔
اگچہ وادی کشمیر میں معمولات زندگی بحال ہونے کے علاوہ تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں بھی بحال ہوگئی ہے تاہم اب لوگوں کو مزید احتیاط سے کام لینے کے ضرورت ہے۔
جموں وکشمیر خاص کر وادی کشمیر میں کروناوائرس کے مریضوں اور مہلوکین کی تعداد میں آئے روز ہوش ربا اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایسے میں اب عوام پر مزید ذمہ داری عائد کہ وہ کروناوائرس کے پھیلاؤ کو مزید روکنے کے لئے اپنا بھر تعاون پیش ۔
جموں وکشمیر میں کووڈ 19 کے بڑھتے نئے معاملات کو دیکھتے ہوئے حکومت نے 23جولائی کو پابندی دوبارہ عائد کی تھی لیکن 24دنوں تک چلی ان پابندیاں کو آج ختم کیا گیا۔
گزشتہ 24گھنٹوں کے دوران 7خواتین سمیت مزید 13افراد کی موت کروناوائرس واقع ہوئی ہے۔۔جس کے بعد اس وبا سے مرنے والوں کی تعداد 500 سے تجاوز کر گئی۔جبکہ 449افراد کے کرونا تشخیصی ٹسٹ مثبت آنے کے ساتھ ہی متاثرین کی تعداد 28470 جا پہنچی ہے۔
اموات اور مثبت معاملات کے لحاظ سے سب سے متاثرہ ضلع سرینگر ہےاوراس کے بعد ماثرہ اضلاع میں شمالی کشمیر کے بارہ مولہ ضلعے کا ۔نمبر آتا ہے۔ایسے میں جموں وکشمیر حکومت کی جانب سے پابندیاں ہٹائے جانے کے بعد اب عوام کا بڑا رول ہے ۔جس پر پورے سماج کو متحد ہونے کے سخت ضرورت ہے۔
وادی کشمیر کی معیشت کو گزشتہ ایک برس سے قریب 40ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے ۔جبکہ ہزاروں کی تعداد میں نوجوان بے بے کاری اور بےروزگاری کی مار جھیل رہے ہیں ۔