حال ہی میں ایک بار پھر سرکاری ڈاکٹروں کی اپنے نجی طبی مراکز پر علاج و معالجے کے حوالے سے ایک سرکاری سرکولر موضوع بحث بنا ہے جس میں انہیں نجی طبی کلنکس پر پریکٹس سے منع کیا گیا ہے۔
بتادیں کہ سرکار نے کئی دفعہ ڈاکٹروں کی نجی پریکٹس پر پابندی کے حوالے سے حکم نامے جاری کئے ہیں تاہم زمینی سطح پر اس میں کوئی خاص اثر دکھائی نہیں دیا۔
ای ٹی وی بھارت نے اس حوالے سے اسپتال میں موجود مریضوں، عام لوگوں اور ڈاکٹروں سے بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ڈاکٹروں کی نجی طبی کلنکس پر معالجے کی سہولیات پر سرکار کو کیا واقعی میں پابندی عائد کرنی چاہئے یا اس عمل کو جاری رکھنا چاہئے ؟
فیاض احمد نامی ایک مریض کا ماننا ہے کہ اس پر مکمل پابندی عائد کرنی چاہئے کیونکہ جس طرح سے نجی مراکز پر معالجے اور ٹیسٹ وغیرہ کے لیے بھاری بھرکم رقم خرچ ہوتی ہے اور مریضوں کو چوس لیا جاتا ہے اس کے مقابلے میں سرکاری اسپتالوں میں بہتر مشینری اور بہتر سہولیات ہونے کے باوجود بہت کم فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔
47 سالہ نظیر احمد ریشی کا ماننا ہے کہ سرکار ایسے سرکولرز قریب ایک دہائی سے جاری کرتی آرہی ہے تاہم زمینی سطح پر ان پر کسی طرح کا عمل در آمد نہیں ہوتا ہے جس سے سرکاری احکامات کے تئیں سرکاری ڈاکٹروں کی غیر سنجیدگی صاف ظاہر ہوتی ہے۔
سرینگر کے سجاد احمد صوفی کے مطابق شیر کشمیر میڈکل انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ڈاکٹروں کو الگ سے نجی پریکٹس نہ کرنے کے لیے الگ سے خصوصی الائونس فراہم کیا جاتا ہے تاہم اس کے باوجود وہ مختلف نجی مراکز پر پریکٹس کرتے ہیں اور اس طرح سرکاری اسپتال میں مریضوں کو صحیح وقت نہیں دے پاتے ہیں جو اس بڑے ادارے میں موجود طبی نظام پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔
دوسری جانب ڈاکٹرس ایسوسی ایشن کشمیر کے صدر ڈاکٹر سُہیل نائک نے ای ٹی وی بھارت سے اس حوالے سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ سرکار کے پاس یہ حقوق محفوظ ہے کہ وہ ڈاکٹروں کی نجی پریکٹس پر پابندی عائد کرے تاہم اگر دوسرے پہلو پر نظر دوڑائیں تو سرکار کے پاس تمام مریضوں کو معالجے کی سہولیات فراہم کرنے کے ذرائع موجود ہی نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ' میرے خیال سے ڈاکٹروں کی نجی پریکٹس سے سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد نہ صرف کم ہوتی ہے بلکہ اس طرح سے اسپتالوں میں معالجے کی سہولیات بھی مناسب طریقے سے فراہم ہوتی ہے وگرنہ اگر نجی طبی مراکز نہیں ہوتے تو سارا بوجھ سرکاری اسپتالوں پر براہ راست بڑھ جاتا اور اس طرح سے وہاں طبی نظام درہم و برہم ہوجائیگا۔