مرکزی حکومت کے وزراء کا 36 رکنی وفد 18 جنوری سے جموں و کشمیر کے دورے پر آ رہا ہے جس دوران وہ عام لوگوں کو دفعہ 370 کی منسوخی کے بارے میں بیدار کریں گا۔
دورے کے حوالے سے مختلف سیاسی رہنماؤں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کشمیر میں بی جے پی کے ترجمان الطاف ٹھاکر نے اس ودر دورے کے متعلق جانکاری دی۔
تاہم کشمیر میں سیاسی جماعتوں نے اس وفد کی آمد سے قبل مرکزی حکومت کی تنقید کی ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے سابق وزیر غلام حسن میر نے بتایا کہ اگر اس وفد کا مقصد پانچ اگست کے بعد لوگوں کے مشکلات کا ازالہ کرنا ہے تو یہ خوش آئندہ قدم ہے۔
پی ڈی پی کے آفس سکریٹری عبدالحمید کوشین نے وفد کی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس قدم سے کشمیر کی صورتحال میں کوئی تبدیلی متوقع نہیں ہے کیونکہ سیاسی جماعتوں کے رہنما جیلوں میں بند ہونے کے ساتھ ساتھ کشمیر کے حالات میں کوئی تبدیلی دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے۔
وہیں کانگرس کے سابق صدر سیف الدین سوز نے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بھاجپا کے وزراء دفعہ 370 کے ہٹانے کے بارے میں کیا بات کریں گے کیونکہ انکو اس دفعہ کی اہمیت معلوم نہیں ہے۔
واضح رہے یہ وفد جموں صوبے کے علاوہ وادی کشمیر کے تین اضلاع بشمول سرینگر، گاندربل اور بارہمولہ کا دورہ کریں گا۔
کشمیر وفد میں بھاجپا کے مرکزی وزیر روی شنکر پرساد کے علاوہ مختار عباس نقوی، جی کشن ریڈی، شری پد نائک اور رمیش پکھریال شامل ہیں۔
یہ وفد سرینگر میں میں ہارون، سٹی سینٹر، ایس کے آئی سی سی، بارہمولہ میں سوپور اور گاندربل میں منیگام اور قصبہ گاندربل میں لوگوں سے ملاقی ہوگا۔
پانچ اگست کے بعد یہ اس نوعیت کا پہلا وفد ہوگا جو جموں وکشمیر کا دورہ کریں گا۔
یہ وفد ضلع سرینگر، گاندربل اور بارہمولہ میں بلاک سطح پر لوگوں کے ساتھ ملاقات کریں گے۔
اس سے قبل جموں و کشمیر خاص کر کشمیر میں سول سوسائٹی اور بیرونی ممالک کے سفیروں کے وفود نے دورے کئے جس دوران انہوں نے کشمیر کے میں پانچ اگست سے پیدا ہوئی غیر یقینی صورتحال کا جائزہ لیا۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس پانچ اگست کو بھاجپا سرکار نے جموں کشمیر کو آئین کے تحت دفعہ 370 کے تحت حاصل خصوصی حیثیت کو ختم کیا گیا تھا اور جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام دو یونین ٹریٹریز میں منقسم کیا گیا تھا۔