گذشتہ ایک ہفتے سے سیاسی پارٹیوں کے کئی رہنماء عوام کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے یہاں سخت محنت کر رہے ہیں۔ ووٹ کے حصول کی کوشش میں دفعہ 370 اور 35 اے کی حفاظت کا وعدہ اب انتخابی ایجنڈے کے طور پر زوروشور استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ رائے دہندگان کو اپنے لیے راضی کیا جائے۔
سبھی رہنما یہاں پلوامہ میں سرکاری رہائشگاہوں میں لگاتار اپنے پارٹی کارکنان سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔
حساس ترین علاقہ ہونے کے سبب یہ سبھی رہنما بہت کم باہر کے علاقوں میں جا پائے ہیں، سکیورٹی کے مدنظر قصبہ میں واقع سرکاری عمارتوں میں ہی سمٹ کر عوامی رابطے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
ان دنوں پی ڈی پی کے سینیئر رہنما رحمان ویری، وحید پرا، خلل بند سمیت درجنوں لیڈران یہاں پر موجود ہیں جبکہ نیشنل کانفرنس کے غلام نبی رتن پوری، محی الدین میر بھی یہاں مورچہ زن ہیں۔
کانگریس کے ریاستی صدر غلام احمد میر نے درجنوں پارٹی لیڈران و کارکنان سمیر ایم ایل اے ہاسٹل کی چوتھی منزل پر ایک کمرہ میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں اور یہیں سے اپنے کارکنان سے ووٹ ڈالنے کے لئے وعدے لیے جا رہے ہیں۔
چنانچہ ان سبھی پارٹیوں کی جانب سے شوپیاں کے سرکٹ ہاؤس اور پلوامہ کے ٹاون ہال میں عوامی رابطہ کے اجلاس بھی منعقد ہوئے۔ لیکن ان میں لوگوں کی معمولی تعداد نے شرکت کی۔
قابل ذکر ہے کہ پہلی مرتبہ بی جے پی کے امیدوار صوفی یوسف بھی چند کارکنان سمیت سخت حفاظتی حصار میں اپنے دفتر میں ووٹ حاصل کرنے کی تگ و دو میں دیکھے جارہے ہیں۔
حقیقت جو بھی ہو لیکن صوفی یوسف دعوی کرتے ہیں کہ اننت ناگ پارلیمانی نشست پر ان کی جیت یقینی ہے۔ جبکہ نیشنل کانفرنس کے مطابق ان کی جیت میں کوئی شبہ نہیں ہے اور کانگریس کے رہنما کے مطابق تو انہوں نے فتح حاصل کر لی ہے محض رسمی اعلان ہی باقی ہے۔
گذشتہ ایک ہفتے کے دوران ان سبھی پارٹیوں نے پہلی مرتبہ پلوامہ و شوپیاں میں پارٹی کارکنان سے رابطے کے لیے اجلاس منعقد کئے۔
اس دوران سبھی نے دفعہ 370 اور 35 اے کی حفاظت کا وعدہ کرکے اپنے حق میں عوام سے ووٹ ڈالنے کی اپیل کی۔
ایسے میں یہ لیڈران میڈیا کے نمائندوں سے مسلسل رابطہ رکھنے اور ان کی خبریں توجہ کے ساتھ نشر کرنے کی اپیل کر رہے ہیں۔
حالانکہ سیاسی لیڈران نے بھی یہاں لوگوں کے انتخابات سے دور رہنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
حال ہی میں عمر عبداللہ نے پلوامہ میں لوگوں کی بہت کم تعداد دیکھ کر بلا جھجھک کہہ دیا کہ " یہاں حالات دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کے لوگوں کا دور دور تک انتخابات سے واسطہ نہیں ہے"۔
انتظامیہ نے دونوں اضلاع میں نیم فوجی اہلکاروں کی بھاری نفری کو تعینات کر دیا ہے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار صورتحال یا واقعہ سے نمٹا جا سکے۔
پولیس ذرائع کے مطابق انتخابات کے لئے باہر سے منگائی گئی فورسز کی سبھی 300 کمپنیاں ان دو حساس ترین اضلاع میں تعینات کی جا رہی ہیں۔ پلوامہ اور شوپیاں سے ملنے والے سبھی راستوں پر بھی جگہ جگہ فورسز تعینات ہے۔
یہاں کل چھ اسمبلی حلقہ ہیں۔ شوپیاں میں سوچی اور شوپیاں اور پلوامہ میں ترال، پانپور، پلوامہ اور راجپورہ۔
ان میں 695 پولنگ مراکز قائم کئے جا رہے ہیں جن میں پلوامہ میں 450 اور شوپیاں میں 245 ہیں۔
ان میں 351314 جبکہ شوپیاں میں 171216 رائے دہندگان ہیں۔ گذشتہ بار بلدیاتی اور پنچایت انتخابات میں سب سے زیادہ ان ہی دو اضلاع میں انتخابات کے بائیکاٹ کا اثر دیکھنے کو ملا تھا۔ اور اس بار بھی سبھی کی نظریں ان ہی دو اضلاع پر رہیں گی۔
اننت ناگ پارلیمانی نشست کے لئے تین مرحلوں میں ووٹنگ ہونی ہے۔ جس میں اننت ناگ اور کولگام اضلاع میں انتخابات مکمل ہوگئے اور اب چھ مئی کو پلوامہ و شوپیاں میں ہونے ہیں۔
اس نشست کے لئے کل 18 امیدوار اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔