ETV Bharat / state

دربارمو پر سیاسی رہنماؤں کا ملا جلا ردعمل

author img

By

Published : Apr 11, 2020, 8:52 PM IST

Updated : Apr 11, 2020, 10:04 PM IST

جموں وکشمیر انتظامیہ کے دربار منتقلی کے تعلق سے لے گئے فیصلے کا ملا جلا ردعمل نظر آرہا ہے۔ جہاں وادی کے سیاستدانوں نے اس کی نکتہ چینی کی ہے وہیں جموں کے سیاستدانوں اور سیاسی ماہرین نے خیر مقدم کیا ہے۔

دربار مو پر سیاسی رہنماؤں کا ملا جلا ردعمل
دربار مو پر سیاسی رہنماؤں کا ملا جلا ردعمل

جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمرعبداللہ نے انتظامیہ کی اس فیصلے کی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ' اس سے عوام کی الجھنوں میں مزید اضافہ ہوگا۔'

دربار مو پر سیاسی رہنماؤں کا ملا جلا ردعمل
دربار مو پر سیاسی رہنماؤں کا ملا جلا ردعمل

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ ' میں سمجھ سکتا ہوں کہ کورونا وائرس کی وجہ سے سرکاری دفاتر سرینگر منتقل نہیں کیے جا سکتے۔ تاہم یہ سمجھ نہیں آتا کہ سرینگر کے ملازم اپنے سینیئر افسران اور معاملات دستاویز کے بنا کام کیسے کر سکتے ہیں۔'ان کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ سرینگر کے ملازموں کو وادی آنے میں کوئی پریشانی نہیں ہے تو جموں کے ملازموں کو مشکلات کیوں ہو سکتی ہیں؟ اگر معاملات کی دستاویز کو سرینگر لے جایا جائے گا تو جموں کے ملازم کیا کام کریں گے۔' انہوں نے لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ 'وہ افسران جو جموں و کشمیر کے باشندے نہیں ہے وہ وادی کیوں نہیں آرہے۔ کیا وجہ ہے کہ وہ جموں میں ہیں قیام کیے ہوئے ہیں؟ 'عمرعبداللہ کے علاوہ وادی کی تمام سیاسی جماعتوں نے بھی اس فیصلے کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ جہاں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ عوام کے مفاد میں نہیں ہیں وہی جموں کشمیر اپنی پارٹی کا کہنا ہے کہ "کورونا وائرس کے چلتے ہیں اقدامات اٹھانا خوش آئند قدم ہے۔ تاہم اس فیصلے کو نافذ کرنے سے پہلے انتظامیہ کو ایک بار پھر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔"جموں و کشمیر عدالت عالیہ نے بھی انتظامیہ سے اس تعلق سے تفصیلات طلب کی ہے۔

کشمیر کے دو وکیلوں کی جانب سے دائر کی گئی عرضی کی سنوائی کے دوران عدالت نے انتظامیہ سے دربار منتقلی کے تعلق سے مرکزی زیر انتظام کتے میں مرتب ہونے والے اثرات کی تفصیلات طلب کی ہے۔وہیں دوسری جانب جموں یونیورسٹی سے ریٹائرڈ پروفیسر ہری اوم نے انتظامیہ کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ " اس فیصلے سے کشمیر کے گزشتہ سرکاروں کے جموں کی نمائندگی کے تمام دعوے بے بنیاد ثابت ہوں گے۔ اور کشمیریوں کی جموں کھٹے پر پکڑ بھی کمزور ہوگئی۔"واضح رہے کہ گزشتہ روز جموں و کشمیر انتظامیہ نے 4 مئی کو مرکزی زیر انتظام علاقے کی گرمائی دارالحکومت سرینگر میں تمام دفاتر کھولنے کا حکم نامہ جاری کیا۔

تاہم وادی کے ملازمین سے کہا گیا کہ وہ سرینگر میں اور جموں صوبے کے ملازمین سے کہا گیا کہ وہ جموں میں کام کریں گے۔ اور یہ فیصلہ جموں کشمیر میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر لیاجارہاہے۔ غور طلب بات ہے کی دربار منتقلی کا سلسلہ 1872 میں مہاراجہ گلاب سنگھ کی جانب سے لیا گیا تھا۔ یہ فیصلہ جموں میں شدید گرمی اور وادی میں شدید سردی کے پیش نظر لیا گیا تھا۔ گلاب سنگھ کے فرمان کے مطابق سردیوں کے چھ مہینے جموں و کشمیر کی دارالحکومت جموں رہے گی جبکہ گرمیوں کے چھ مہینے دارالحکومت سرینگر رہے گی۔ اور آج تقریبا 148 سال بعد جموں و کشمیر میں دربار منتقل نہیں ہوگی۔

جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمرعبداللہ نے انتظامیہ کی اس فیصلے کی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ' اس سے عوام کی الجھنوں میں مزید اضافہ ہوگا۔'

دربار مو پر سیاسی رہنماؤں کا ملا جلا ردعمل
دربار مو پر سیاسی رہنماؤں کا ملا جلا ردعمل

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ ' میں سمجھ سکتا ہوں کہ کورونا وائرس کی وجہ سے سرکاری دفاتر سرینگر منتقل نہیں کیے جا سکتے۔ تاہم یہ سمجھ نہیں آتا کہ سرینگر کے ملازم اپنے سینیئر افسران اور معاملات دستاویز کے بنا کام کیسے کر سکتے ہیں۔'ان کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ سرینگر کے ملازموں کو وادی آنے میں کوئی پریشانی نہیں ہے تو جموں کے ملازموں کو مشکلات کیوں ہو سکتی ہیں؟ اگر معاملات کی دستاویز کو سرینگر لے جایا جائے گا تو جموں کے ملازم کیا کام کریں گے۔' انہوں نے لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ 'وہ افسران جو جموں و کشمیر کے باشندے نہیں ہے وہ وادی کیوں نہیں آرہے۔ کیا وجہ ہے کہ وہ جموں میں ہیں قیام کیے ہوئے ہیں؟ 'عمرعبداللہ کے علاوہ وادی کی تمام سیاسی جماعتوں نے بھی اس فیصلے کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ جہاں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ عوام کے مفاد میں نہیں ہیں وہی جموں کشمیر اپنی پارٹی کا کہنا ہے کہ "کورونا وائرس کے چلتے ہیں اقدامات اٹھانا خوش آئند قدم ہے۔ تاہم اس فیصلے کو نافذ کرنے سے پہلے انتظامیہ کو ایک بار پھر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔"جموں و کشمیر عدالت عالیہ نے بھی انتظامیہ سے اس تعلق سے تفصیلات طلب کی ہے۔

کشمیر کے دو وکیلوں کی جانب سے دائر کی گئی عرضی کی سنوائی کے دوران عدالت نے انتظامیہ سے دربار منتقلی کے تعلق سے مرکزی زیر انتظام کتے میں مرتب ہونے والے اثرات کی تفصیلات طلب کی ہے۔وہیں دوسری جانب جموں یونیورسٹی سے ریٹائرڈ پروفیسر ہری اوم نے انتظامیہ کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ " اس فیصلے سے کشمیر کے گزشتہ سرکاروں کے جموں کی نمائندگی کے تمام دعوے بے بنیاد ثابت ہوں گے۔ اور کشمیریوں کی جموں کھٹے پر پکڑ بھی کمزور ہوگئی۔"واضح رہے کہ گزشتہ روز جموں و کشمیر انتظامیہ نے 4 مئی کو مرکزی زیر انتظام علاقے کی گرمائی دارالحکومت سرینگر میں تمام دفاتر کھولنے کا حکم نامہ جاری کیا۔

تاہم وادی کے ملازمین سے کہا گیا کہ وہ سرینگر میں اور جموں صوبے کے ملازمین سے کہا گیا کہ وہ جموں میں کام کریں گے۔ اور یہ فیصلہ جموں کشمیر میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر لیاجارہاہے۔ غور طلب بات ہے کی دربار منتقلی کا سلسلہ 1872 میں مہاراجہ گلاب سنگھ کی جانب سے لیا گیا تھا۔ یہ فیصلہ جموں میں شدید گرمی اور وادی میں شدید سردی کے پیش نظر لیا گیا تھا۔ گلاب سنگھ کے فرمان کے مطابق سردیوں کے چھ مہینے جموں و کشمیر کی دارالحکومت جموں رہے گی جبکہ گرمیوں کے چھ مہینے دارالحکومت سرینگر رہے گی۔ اور آج تقریبا 148 سال بعد جموں و کشمیر میں دربار منتقل نہیں ہوگی۔

Last Updated : Apr 11, 2020, 10:04 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.