انہوں نے کہا کہ 'کشمیر کی مزاحمتی قیادت کے رہنما جیسے محمد یاسین ملک پر پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کر کے انہیں جموں منتقل کرنا اور میر واعظ عمر فاروق اور سید علی گیلانی کے بیٹے کو این آئی اے کے پاس پوچھ تاچھ کے لیے حاضر ہونے جیسے اقدامات سے کشمیر کی بے چینی مزید بڑھ سکتی ہے'۔
پروفیسر سوز نے کہا کہ 'یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مودی کے زمانے میں کشمیر کے حالات کافی حد تک بگڑ چکے ہیں'۔
کانگریسی رہنما نے کہا ہے 'مجھے بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وزیراعظم مودی کو ایک چھوٹی سی بات سمجھ نہیں آتی ہے کہ اُن کی زور زبردستی کی پالیسی سے وہ کشمیر میں حالات کو اور زیادہ تشویشناک بنا رہے ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ 'ان حرکات سے کشمیر کے حالات مزید بگڑ سکتے ہیں اور اس طرح کے رویے سے مودی حکومت کو کشمیر میں کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے'۔
انہوں نے کہا ہے 'میری نظر میں مرکز کو کشمیر میں زیادہ سے زیادہ فوجی طاقت کے استعمال اور مزاحمتی قیادت کو دھمکانے سے کچھ حاصل ہو نے والا نہیں ہے بلکہ اس سے یہاں کی تشویش ناک صورت حال مزید خراب ہو سکتی ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ مودی حکومت کی کشمیر کے تئیں اپنائی گئی پالیسیاں آنے والے وقت میں خود بخود غلط ثابت ہوں گی جس کا بخوبی مظاہرہ ریاستی گورنر نے مرکزکی طرف سے حکم نامے پر عمل پیرا ہونے میں کئی بار کیا ہے'۔