وادی کشمیر میں بھی انسانی حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں کئی ادارے اور کارکنان کام کر رہے ہیں تاہم 10دسمبر کو عالمی یوم حقوق انسانی کے موقعے پر سابق برسوں کے برعکس امسال کسی بھی جلسے، تقریب، احتجاج یا سیمنار کا انعقاد نہیں کیا گیا۔
کشمیر میں انسانی حقوق پر کام کرنے والے کارکنان کا کہنا ہے کہ آج کا دن انکے لیے معنی خیز ہے کیونکہ اس روز وہ ’’کشمیر میں دہائیوں سے جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کے متعلق احتجاج، جلسوں اور سیمناروں کے ذریعے عالمی برادری کو کشمیر کے حالات سے باخبر کراتے ہیں۔‘‘
تاہم کشمیر میں 5 اگست سے پیدا شدہ غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر آج کے روز کسی بھی انسانی حقوق پر کام کرنے والی تنظیم یا کارکن نے کوئی بھی تقریب یا احتجا ج منعقد نہیں کیا۔
ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے گمشدگیوں پر کام کرنے والی تنظیم ’ایسوسیشن آف ڈس ایپیرڈ پرسنز‘ (Association of Disappeared Persons) کی صدر پروینہ آہنگر کا کہنا تھا کہ ’’آج کے دن ہی دنیا کو کشمیر میں ہو رہی انسانی حقوق کی پامالیوں کی طرف متوجہ کیا جاتا تھا اور انصاف دلانے والے اداروں تک آواز پہنچائی جاتی تھی۔‘‘
پروینہ آہنگر کا کہنا ہے کہ انکی تنظیم آج کے دن سرینگر کے لالچوک میں احتجاج منعقد کرتی تھی جس سے کشمیر میں لاپتہ کیے گئے افراد کے لواحقین گمشدہ کیے گئے اپنے اعزہ و اقارب کو یاد کرتے اور انکے متعلق معلومات دینے کی انتظامیہ سے گزارش کرتے تھے، تاہم پروینہ کے مطابق انتظامیہ نے انکو آج احتجاج کرنے کی اجازت نہیں دی۔
پروینہ آہنگر نے بتایا کہ انکے فرزند کو 1990 میں سیکورٹی فورسز نے گرفتار کیا اور اب تک ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں، اور سرکار انکو اپنے فرزند کےمتعلق کسی قسم کی بھی جانکاری فراہم کرنے میں آج تک ناکام ہے۔
پروینہ آہنگر نے سنہ 1994 میں ایسوسی ایشن آف ڈس ایپیرڈ پرسنز نامی ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جو کشمیر میں لاپتہ افراد کی معلومات حاصل کرنے کے بارے میں جدو جہد کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’’آج تک انصاف ملا ہے نہ ملنے کی کوئی امید ہے، انصاف فقط خدا کی بارگاہ میں ہے۔‘‘ تاہم اس کے باوجود انہوں نے اپنی جد و جہد جاری رکھنے کی ٹھان لی ہے۔
انسانی حقوق کے عالمی دن کے حوالے سے سینئر صحافی جلیل راٹھور نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ’’کشمیر کیلئے آج کا دن کافی اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ یہاں کافی عرصے سے انسانی حقوق کی پامالیوں کے متعلق سنگین الزامات عائد کیے جاتے ہیں کہ ’’سٹیٹ اور نان سٹیٹ ایکٹرز کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالیاں سر زد ہوئی ہیں۔‘‘
راٹھور نے مزید کہا کہ انسانی حقوق کی پاسداری کے حوالے سے کشمیر اور بین الاقوامی سطح پر کافی کام ہوا ہے۔ اور انہوں نے امید ظاہر کی کہ 'کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں سے متعلق جو سوالات اور خدشات ظاہر کئے گئے ہیں دنیا میں متحرک انسانی حقوق پر کام کرنے والے ادارے ان کی نوٹس لیں گے اور آئندہ اس حوالے سے صورتحال میں بہتری آئے گی'۔
کشمیر میں تین دہائیاں قبل شروع ہوئی عسکریت پسندی کے بعد سے اب تک کشمیر میں کئی جانیں تلف ہوئی ہیں، ہزاروں کی تعداد میں بچے یتیم، خواتین بیوہ ہوئیں ہیں۔
کشمیر میں نیم بیوہ خواتین کی تعداد بھی تشویشناک حد تک موجود ہیں جن کے شوہر گرفتار کرکے لاپتہ کر دیے گئے، جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ آیا انکے شوہر زندہ ہیں یا مار دیے گئے ہیں۔
جبری گمشدگیوں پر کام کرنے والی کارکن پروینہ آہنگر نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ اگرقانون سب کے لیے برابر ہے تو کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں کرنے والے افراد پر قانون کا اطلاق کیوں نہیں کیا جاتا ہے.
پروینہ آہنگر کے مطابق عدالت، ہیومن رایٹس ادارے انکے لیے بے معنی ہیں کیونکہ آج تک انکو ان اداروں سے انصاف نہیں ملا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ لاپتہ ہوئے افراد کے لواحقین کے دلوں میں ایک تڈپ ہے کہ انکو انکے رشتہ داروں کے متعلق جانکاری فراہم ہو کہ کیا وہ قبروں میں دفن کئے گئے ہیں یا زندہ جیلوں میں قید ہے۔