ان گرفتاریوں میں سینکڑوں لوگوں کو "بدنام زمانہ" قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت قید کر دیا گیا اور انکو بیرونی ریاستوں کے جیلوں میں بند کر دیا گیا جن میں اکثر افراد آج بھی قید و بند میں ہیں۔
ان گرفتاریوں میں جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ اور رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے علاوہ تاجر، وکلاء بھی شامل ہیں۔
فاروق عبداللہ کو حکومت نے سرینگر میں ان کی رہائش گاہ میں نظر بند کیا ہے اور انکی رہایش گاہ کو انتظامیہ نے سب جیل قرار دیا ہے۔
'جموں و کشمیر کئولیشن آف سول سوسائٹی' نامی انسانی حقوق پر کام کرنے والی تنظیم کے مطابق پانچ اگست کے بعد حکومت نے 412 افراد پر پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کیا ہے اور ان میں سے بیشتر افراد بیرونی ریاستوں کے جیلوں میں بند ہیں۔
کئولیشن آف سول سوسائٹی کی ر کن تاوش کا کہنا ہے کہ انہوں نے آر ٹی آئی کے ذریعے حکومت سے پی ایس اے کے تحت گرفتاریوں کے متعلق جانکاری حاصل کی ہے جس میں حکومت کا کہنا ہے کہ پانچ اگست کے بعد 412 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس حکومت نے کل 662 افراد پر پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کرکے جیلوں میں بند کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ کشمیر میں پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق سنہ 1978 میں ہوا تھا۔ تب سے کشمیر میں اس ایکٹ کا بے تحاشہ اطلاق کیا گیا ہے۔
عالمی سطح پر انسانی حقوق پر کام کرنے والی تنظیم 'ایمنسٹی انٹرنیشنل' نے پی ایس ایس کو "کالا قانون" قرار دیا ہے اور کشمیر میں بھی اس قانون کی شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
وکلاء کا کہنا ہے کہ اس قانون کا اطلاق جموں و کشمیر میں صحیح طریقے سے نہیں ہو رہا ہے۔
سرینگر کے ہائی کورٹ کے وکیل شبیر احمد نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ' جموں و کشمیر میں جاری نامساعد حالات کے پیش نظر حکومتوں نے اس قانون کا لوگوں پر بے تحاشہ استعمال کیا ہے۔'
شدید تنقید کے باوجود اس قانون کو مختلف سرکاروں نے سخت سے سخت بنانے کی کوشش کی ہے۔
سنہ 1978 میں اس قانون کے اطلاق کے بعد اس میں کئی ترامیم کی گئیں جن کو ماہر قانون "غیر قانونی" اور "عوام مخالف" قرار دے رہے ہیں۔
شفقت نذیر نامی وکیل نے کہا کہ' پانچ اگست کے بعد سرینگر کے ہائی کورٹ میں 500 سے زائد افراد پر پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کیا گیا ہے۔'
انہوں نے کہا ' ترامیم کی وجہ سے اس قانون کو سخت بنایا گیا ہے تاکہ لوگوں میں خوف پیدا ہو۔'